باب نمبر:٧

796 62 41
                                    


اپنے ہاتھوں کی لکیریں دیکھتے ہوئے اسنے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا۔کیا ایسا ہو سکتا تھا جیسا ہوا تھا۔اسنے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔وہ ایسے اسکی ذندگی میں شامل ہوگی۔کسی نے بھی نہیں سوچا تھا۔

”پچھلے ایک مہینے سے میں اتنا خوش ہوں کہ کوئی بھی نہیں سوچ سکتا۔میں تو یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ کبھی تمہیں دوبارہ سامنے ایسے بیٹھے دیکھ ہی نہیں سکوں گا۔لیکن۔۔لیکن دیکھو تم میرے سامنے ہو۔مجھے آج تک یقین نہیں آرہا اور تم۔۔۔۔تم کہتی ہو میں خوش نہیں ہوں۔خوش ہونا اور کیا ہوتا ہے؟میری آنکھوں میں۔۔۔میرے انداز سے نہیں پتہ چلتا کہ میں خوش ہوں؟میں تمہیں ہاتھ لگانے سے ڈرتا ہوں کہ اگر ہاتھ لگانے کو بڑھایا تو تم غائب ہو جاؤ گی۔ویسے ہی جیسے برسوں پہلے تم خود۔۔۔۔اپنی مرضی سے میری ذندگی سے غائب ہوگئی تھی۔“

وہ بول رہا تھا اور وہ سن رہی تھی۔کیا اور کوئی یقین دہانی چاہیئے تھی اسکو۔۔کیا کوئی اور ثبوت چاہیئے تھا اسکو۔۔اسکی محبت پر یقین کرنے کے علاوہ۔
اسکی آنکھوں میں سچائی تھی۔۔۔۔خوشی تھی۔پہلے اسنے کبھی کوشش ہی نہیں کی تھی دیکھنے کی۔۔۔آج دیکھا تو یقین ہوگیا۔

_________________

”ایک دفعہ۔۔۔ایک دفعہ اس سے بات کر کے تو دیکھو۔تمہیں یقین ہوجائے گا وہ تم سے کتنی محبت کرتا ہے۔“التجا ہی التجا تھی سامنے بیٹھی لڑکی کی بات میں۔

”نہیں۔۔۔نہ ہی مجھے اس سے بات کرنی ہے اور نہ ہی اسکی محبت پر یقین۔“کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے بہت پرسکون ہوکر جواب دیا گیا۔

”لیکن۔کیوں۔۔۔۔کیوں اسکو دکھ دے رہی ہو؟“اضطراب بڑھتا جارہا تھا۔

”میں کوئی دکھ نہیں دے رہی۔۔۔بلکہ میں خود کو دکھ سےبچانا چاہتی ہوں۔“وہی پرسکون لب و لہجہ۔

”مطلب۔۔۔کونسا دکھ؟“چونک کر پوچھا گیا۔

کرسی کی پشت چھوڑ کر وہ آگے ہوئی اور کہنیاں ٹیبل پر رکھ کر اس کو کہنے لگی۔
”بدنامی کا دکھ۔۔۔۔مجھے بدنامی سے ڈر لگتا ہے۔میں نہیں چاہتی بدنامی میرا مقدر بنے۔“

”وہ کبھی تمہاری بدنامی کا سبب نہیں بنے گا۔یقین کرو۔“کیا یقین سا یقین تھا۔کچھ پل کے لیئے وہ خاموش رہی۔پھر گویا ہوئی۔

”بس۔۔۔کہہ دیا نہ۔۔۔نہیں کرنی مجھےاس سےبات۔چلتی ہوں۔کہہ کر کرسی کےپاس پڑا اپنا بیگ اٹھایا اور خراماں خراماں چلتی کیفے سے نکل گئی جبکہ وہ پیچھے بیٹھی اپنی عزیز از جان کی خوشی اور محبت کو دور جاتا دیکھ رہی تھی۔

___________________

لاؤنج میں کارپٹ پر بیٹھے وہ دونوں رنگوں سے کاغذوں پرکچھ بنانے کی سعی کر رہے تھے۔بنانے سے ذیادہ وہ اپنےکپڑے گندے کر رہے تھے۔
جبرائیل اور فاطمہ کہیں گئے ہوئے تھے اور اس وقت لائقہ،حائقہ کےساتھ حسن موجود تھا جو حائقہ کے ساتھ مل کر رنگوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Donde viven las historias. Descúbrelo ahora