باب نمبر:٩

775 66 44
                                    

ذندگی کا سفر لمبا ہوتا ہے۔۔۔۔طویل ہوتا ہے۔۔۔۔راہ کٹھن ہوتی ہے۔۔۔۔۔مشکل ہوتی ہے۔۔۔۔۔راستہ دشوار ہوتا ہے۔۔۔راہ ہموار نہیں ہوتی۔۔۔لیکن پھر بھی۔۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔لمبا،کٹھن،طویل،مشکل،دشوار سفر گزر جاتا ہے۔۔۔اسے گزرنا ہی ہوتا ہے۔سب گزار ہی لیتے ہیں۔گزارنا پڑتا ہے اگر نہ گزارنا چاہیں۔۔۔راستہ خود ہی گزر جاتا ہے۔۔۔۔دھیرے دھیرے۔۔۔۔رفتہ رفتہ۔۔ہولے ہولے۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ۔

سِدن اور سِبط نے بی۔بی۔اے مکمل کر لیا۔سِدن نے اسماعیل صاحب کے ساتھ بزنس سنبھالا اور سِبط نے سی۔ایس۔ایس کر کے ڈی۔ایس۔پی کا عہدہ۔ان دونوں کی دوستی وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی جاری تھی۔
دوسری طرف ان تینوں سہیلیوں کی ذندگی بھی گزر رہی تھی۔حور اور مائرہ ایم۔بی۔بی۔ایس کے دوسرے سال میں تھیں جبکہ لائقہ بی۔بی۔اے کے چوتھے سمسٹر میں۔
ذندگی بظاہر ٹھیک اور آسان تھی لیکن جو بظاہر آسان اور ٹھیک لگ رہا ہوتا ہے وہی مشکل ہوتا ہے۔

سہ پہر تین بجے کا وقت تھا۔میٹنگ روم میں تینوں پارٹنرز اور پورا بورڈ آف ڈائیریکٹر موجود تھا۔یہ سب نئی ڈیل کے سلسلے میں جمع ہوئے تھے۔نئی ڈیل بہت پےچیدہ قسم کی تھی۔۔۔کوئی چاہتا تھا یہ ڈیل ہوجائے اور کوئی چاہتا تھا نہ ہو۔

”جبرائیل!اگر یہ پراجیکٹ فیل ہوگیا تو ہمیں ستّر فیصد کا نقصان ہوگا۔“محسن بیگ بولے۔

”لیکن اگر کامیاب ہوگیا تو ہمیں دگنا،تگنا فائدہ ہوسکتا ہے۔“جبرائیل نے انکو قائل کرنا چاہا۔

”شاید تم بھول رہے ہو اس میں اگر شامل ہیں۔“محسن بیگ نے ایک مرتبہ پھر کوشش کی۔

”نہیں بھولا۔جانتا ہوں۔“جبرائیل ہلکا سا مسکائے۔

”ہم یہ رِسک نہیں لے سکتے۔“سب نے جیسے ہاتھ کھڑے کیئے تھے۔

”مت بھولیں کہ میرا پچاس فیصد شیئر ہے اس بزنس میں۔اسلیئے فیصلے کا اختیار اتنا مجھے بھی حاصل ہے جتنا آپ دونوں کو مِلا کر۔“جبرائیل کی بات پر خاموشی چھا گئی کیونکہ باتبالکل ٹھیک تھی وہ اکیلے بھی فیصلہ لے سکتےتھے۔

”ٹھیک ہے جو مرضی کرو لیکن نقصان کے ذمّہ دار تم ہوگے اور۔“

”اور؟“جبرائیل نے بھنویں اچکائی۔

”اور ہمارے نقصان کی پھرپائی بھی تمہیں ہی کرنی ہوگی۔“

جبرائیل کو یقین تھا یہ ڈیل کامیاب ہو جائے گی اور انکو فائدہ ہوگا۔اسلیئے انہوں نے تھوڑا سوچا۔

”ٹھیک ہے۔۔۔مجھے منظور ہے۔میں نقصان کی پھرپائی کروں گا لیکن۔“اب اپنی بات منوانے کی باری جبرائیل کی تھی۔

”اگر ہم کامیاب ہوئے تو فائدے کا ساٹھ فیصد میرا ہوگا اور چالیس کو آپ دونوں بانٹے گیں۔“

”لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے؟“محسن بیگ کو تو جیسے پتنگے لگ گئے۔

”بالکل ہو سکتا ہے۔اگر نقصان میں اکیلا بھر سکتا ہوں تو یقیناََ پورا فائدہ مجھے لینے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہوگی۔یہ تو میں ہوں جو چالیس آپ دونوں کو دے رہا ہوں۔“جبرائی تھوڑا رکے پھر پوچھا۔
”بولے منظور ہے؟“

زندگی ایثار مانگتی ہے!(مکمل)Where stories live. Discover now