پہلا باب

4K 136 101
                                    


پہلا باب:

"کیا آپ کو فرہاد شاہ ولد نصیر شاہ سے مبلغ تین کروڑ روپے سکہ رائج الوقت اور سو تولے سونا نکاح قبول ہے؟"

اس نام پہ وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی۔

اس کے لیے یہ زندگی اور موت کا فیصلہ تھا۔

"قبول ہے۔"

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"

نکاح اس کی ذات پر لگا کیچڑ دھو ڈالتا یا اس کے دامن کو مزید داغدار کرتا اس کا فیصلہ وقت کو کرنا تھا۔

یقیناً وقت کے فیصلے ہی بہترین ہوا کرتے ہیں۔

"قبول ہے۔"

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟" امام صاحب ایک مرتبہ پھر گویا ہوئے۔

آج اس کا نکاح تھا لیکن عروسی لباس ندارد۔ اس کے سر پر تو سرخ چادر تک نہ تھی۔

کیا آئندہ بھی اس کی زندگی کو کانٹوں کی سیج ہی بنے رہنا تھا یا اس کے مقدر میں بھی گل لالہ تھے؟

اس بات کا فیصلہ بھی وقت ہی کو کرنا تھا۔

"قبول ہے۔"

اور وقت نے مقدمہ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔

اس کے پاس کوئی نہ تھا جو اس کو گلے لگا کر مبارکباد دیتا۔ نہ ماں، نہ بہن ،نہ کوئی دوست۔ اب اس کے نصیب میں باپ کا شفقت بھرا ھاتھ بھی نہیں رہا تھا کہ وہ اس کے سر پر رکھتے اور اس کو تسلی و تشفی ہوتی۔

یہی سب سوچتے وہ اس آفس نما کمرے سے باہر نکلی اور راہداری میں چلنے لگی۔

شاہ،امام صاحب اور گواہان پہلے ہی باہر جاچکے تھے۔

~~~~~~~~~~~

"ارے علوینہ تم یہاں گھوم رہی ہو اور ادھر سارہ تمہارا کریکٹر لینے کے لیے مس فرحت کو راضی کرچکی ہے۔" سعدیہ نے ہانپتے ہوئے اس کو بتایا۔

وہ جو پونی میں مقید سنہری بال اور سرخ و سفید ہاتھ لہرا کر کچھ جونئیر سٹوڈنٹس سے بات کررہی تھی یکدم سعدیہ کی طرف مڑی اور اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھنے لگی۔

"تم سے میں نے کتنی دفعہ کہا ہے کہ یوں اچانک آکر مداخلت مت کیا کرو۔"پھر وہ جونئیر سٹوڈنٹس سے دوبارہ ملنے کا کہہ کر سعدیہ کے ساتھ چل پڑی۔

"میں سچ کہہ رہی ہوں۔ سارہ نے ریہرسل بھی شروع کردی ہے۔" سعدیہ نے اس کے قدم سے قدم ملانے کی کوشش میں پھولے سانس سے کہا۔

"میں دیکھ لیتی ہوں سارہ کو۔"اس نے ببل چباتے ہوئے شان بےنیازی سے جواب دیا۔

"مس فرحت!" مس فرحت اپنا نام سن کر راہداری میں رک گئیں اور علوینہ کو دیکھ کر مسکرانے لگیں۔

"ارے علوینہ! میں آپ کو ہی بلوانے والی تھی۔مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔" مس فرحت نے مسکراتے ہوئے کہا۔

صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتیWhere stories live. Discover now