دوسرا باب
شوٹنگ کے اوقات کار علوینہ کے ٹائم ٹیبل کے مطابق رکھے گئے تھے۔ وہ اپنی پڑھائی کا بھی نقصان نہیں چاہتی تھی۔ ہر چیز اس کے مطابق جارہی تھی سوائے ذکاء آفندی کی حرکتوں کے۔ایک مہینہ ہونے کو آگیا تھا لیکن وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا تھا۔ اپنی عمر کو بالائے طاق رکھے وہ ہر موقع پر علوینہ سے فلرٹ کرنے کی کوشش میں ہوتا تھا۔ علوینہ کی ناک اور رخسار غصے کی وجہ سے سرخ رہتے اور آنکھیں چندھیا کر وہ اکثر اس کو گھورتی تھی مگر اس کے لیے یہ بھی اس اپسرا کی ادا تھی جو اس کو لبھاتی تھی۔ شہروز اس ساری کاروائی سے محظوظ ہوتا تھا۔ اس نے کبھی علوینہ یا ذکاء آفندی سے کچھ نہیں کہا تھا۔
"علوینہ! رکو۔" جمعے کی شام سات بجے علوینہ پیک اپ ہونے کے بعد گھر روانہ ہو رہی تھی جب ذکاء آفندی نے پیچھے سے آواز دے کر اس کو روکا۔
آج انہوں نے صرف وہی سینز شوٹ کیے تھے جن میں علوینہ اور سائیڈ رولز تھے کیونکہ شہروز کو کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جانا پڑا تھا۔
علوینہ نے ابرو کے اشارے سے ذکاء آفندی کو جواب دیا۔
"اتنی بھی کیا جلدی ہے تمہیں گھر جانے کی۔ دو گھڑی ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کرو۔" ذکاء آفندی نے اپنے مخصوص شوخ اور بےباک لہجے میں کہا۔
اس کی بات سن کر علوینہ آنکھیں گھما گئی۔
"آفندی صاحب!" اس نے زور دیتے ہوئے کہا۔ "آپ کو مجھ سے کیا بات کرنی ہے وہ بھی اکیلے میں۔" اس نے وہاں پر کسی کو نہ پاکر کہا۔ شاید ذکاء آفندی باقی سب کو جلدی نکل جانے کا کہہ کر آیا تھا۔
"تم نے تو میرے دل کی بات جان لی۔" اس نے قریب کھسکتے ہوئے کہا۔
"میری گاڑی باہر ہی کھڑی ہے آج کا ڈنر میری طرف سے۔" ذکاء آفندی نے ہاتھ کے اشارے سے علوینہ کو چلنے کے لیے کہا۔
"آفندی صاحب میں آپ کو آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں دے سکتی۔ سڑک کے اس پار جو کیفے ہے ادھر چلیں۔" اور اس کے آگے بڑھ کر چلنے لگی۔
"تمہاری انہیں اداؤں نے تو مجھے دیوانہ کر رکھا ہے۔" بلند آواز میں کہہ کر وہ بھی علوینہ کی پیروی میں چلنے لگا۔
ڈبل ایسپریسو کے مگ سے بھاپ اڑ رہی تھی اور ساتھ شیشے کی دیوار پر قطرہ قطرہ پانی جمع ہو رہا تھا۔ علوینہ کی انگلی مسلسل مگ کے سرے پر چل رہی تھی۔ شیشے کے پار دیکھتے تھے تو ہر طرف گہما گہمی نظر آرہی تھی۔ گاڑیوں کی لائٹس، سامنے دکانوں پر لگی رنگ برنگی لائٹس اور رنگ برنگے ملبوسات پہنے لوگ دنیا کی چکا چوند کا باعث بنے تھے۔ کیفے کی باہر کی دنیا میں تیزی تھی مگر وہاں سے شور نہیں آرہا تھا۔ شاید وہ کیفے ساؤنڈ پروف تھا۔ کیفے کے اندر کے لوگ کافی فرصت سے بیٹھے لگ رہے تھے لیکن پھر بھی ان کے بولنے کی بڑبڑاہٹ سنائی دیتی تھی۔
علوینہ اور ذکاء آفندی ایک قدرے سائیڈ پر لگی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔ دونوں میں سے کوئی بھی ابھی ہجوم کی توجہ نہیں چاہتا تھا۔
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...