تیسرا باب
سہ پہر کے پانچ بجے علوینہ اور شہروز اکٹھے بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کررہے تھے۔ ان کو شوٹ کرتے اب تقریباً تین ماہ ہوگئے تھے اور ان دونوں کی بھی اچھی بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ شہروز اب علوینہ کو پسند کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے مرعوب بھی تھا جس کا اظہار وہ اس کی تعریف کرکے اور اس کو سراہ کے کرتا تھا۔
"شہروز تم یہاں بیٹھے ہو اور میں کب سے تمہیں باہر ڈھونڈ رہا تھا۔" ذکاء آفندی نے شہروز سے کہا وہ عجلت میں دکھائی دیتا تھا۔
"چلو شہرین سے ملنے جانا ہے۔"
"خیریت ہے؟" علوینہ نے پوچھا۔
"ہاں اس نے بلایا ہے کہہ رہی تھی ضروری کام ہے۔"
"میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔"
شہروز اور ذکاء آفندی فرنٹ سیٹ پر اور علوینہ بیک سیٹ پر بیٹھے ریسٹورنٹ پہنچے جو سیٹ سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھا۔
"یہ کیوں آئی ہے؟" علوینہ کو دیکھ کر شہرین نے نخوت سے کہا۔
"میرے آنے سے کوئی مسئلہ ہے آپ کو مس شہرین علوی!" علوینہ نے سن گلاسز اتار کر ٹیبل پر رکھے اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ اس نے شہرین کا جواب سننے کی بھی زحمت نہ کی اور اور دوبارہ بول پڑی۔
"Well, I'm too much hungry. Sushi for me.
(بہرحال مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ میرے لیے سوشی۔)" اس نے ویٹر کو دیکھ کر کہا جو آرڈر نوٹ کرنے کے لیے کھڑا تھا۔ وہ لوگ ایک پرائیویٹ بوتھ میں تھے۔"You are too self centered, Alveena."
شہروز نے مسکراتے ہوئے کہا اور اس کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ علوینہ نے محض کندھے اچکائے اور اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہوگئی۔"شہروز ہم یہاں مس علوینہ کی باتیں کرنے نہیں آئے ہیں۔" شہرین نے غصے سے کہا۔
"Don't overreact, Shehreen."
شہروز نے تنبیہی لہجے میں کہا۔ذکاء آفندی نے علوینہ کے ساتھ والی کرسی سنبھالی اور شہرین اس کے سامنے شہروز کے ساتھ بیٹھ گئی۔ علوینہ سوشی کے ساتھ انصاف کرنے میں مصروف تھی جب ذکاء نے اس کو ٹوکا۔ "علوینہ تمہیں اپنی فٹنس کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔"
"For now I can't bother about fitness."
مسکراتے ہوئے کہہ کر وہ دوبارہ کھانے میں مصروف ہوگئی۔ ذکاء آفندی اور شہروز خان اس کی بات سن کر مسکرا دئیے جبکہ شہرین مسلسل اس کو غصیلی نظروں سے گھور رہی تھی۔"شہرین بتاؤ بھی کیا مسئلہ ہے؟" شہروز نے ڈائٹ کوک کا سپ لیتے ہوئے کہا۔ شہرین اور ذکاء آفندی نے کچھ بھی لینے سے انکار کردیا تھا جب شہروز نے ان کے لیے بھی آرڈر کرنا چاہا تھا۔
شہرین، علوینہ کے سامنے بات تو نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اس کی مجبوری تھی اس لیے گویا ہوئی۔
"اب چونکہ تم لوگوں نے میری جگہ علوینہ کو کام دیا ہے اور جس کے بارے میں مجھے کوئی خاص امید بھی نہیں بہرحال مجھے کسی بڑے پراجیکٹ میں کام چاہیے۔" علوینہ نے اس کی بات پر کوئی تاثر نہ دیا۔
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...