باب نمبر ١٩

558 54 63
                                    

میں چٹیاں فجراں لبدی آں
مینو گھپ اندھیرے لبدے نے
مینو دل دا محرم نئیں ملیا
مینو یار بتھیرے لبدے نے!


________

جانتے ہو دنیا میں سب سے اذیت ناک لمحہ کونسا ہوتا ہے؟ اذیت کا پیمانہ تب ٹوٹتا ہے جب دماغ بوجھل ہو، روح شکست خوردہ، اور دل۔۔ دل صرف خون سپلائی کرنے کا ایک آلہ۔ جب تکلیف پگھلے موم کی طرح قطرہ قطرہ رگ و پے میں سما جائے۔ جب تم دیکھنے میں تو آزاد ہو مگر تمہارے ہاتھ پاؤں کام کرنے کی سکت ہی نہ رکھیں۔ جب تمہارا من کرلا کرلا کر ہار جائے کہ اس کو آزاد کرو، اس میں پنپنے والے خیالات کو الفاظ دو مگر تمہاری زبان گونگی ہوچکی ہو۔ بے زبانی کا عالم ایسا کرب ناک ہو کہ ہزاروں کوڑے کھانے کے بعد تمہارے حلق سے ایک کراہ بھی برآمد نہ ہو۔ یہ ہوتی ہے اذیت۔ یہ ہوتا ہے اذیت کا سوا ہونا۔

پچھلے تین ماہ سے وہ اذیت کے آخری درجے پر کھڑی تھی۔ حد سے سوا ہوتی اذیت۔ اندھیر کمرے میں سانپوں کے ڈسنے سے تڑپ تڑپ کر جان گنوا دینے والی اذیت۔ اب تو سسکاریاں بھرنا بھی بند ہوگئیں تھیں۔ وہ مضبوط اعصاب کی مالک تھی مگر ان تین ماہ نے اس کی ہمت حوصلہ سب ختم کردیا تھا۔ عاہن اور گلفام اس کو دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے تھے۔ چندا ہی تھی جو اس کا جینا حرام کررہی تھی۔ اگر کبھی وہ کسی بات سے انکار کرتی یا اس کے آگے زبان چلاتی تو چندا کا خاص ڈنڈا اس کے لیے تیار ہوتا تھا۔ وہ نازک جان تھی۔ نازوں میں پلی تھی۔ کبھی کسی کی گھوری نہیں برداشت کی تھی اور اب باقاعدہ تشدد برداشت کرتی تھی۔ اگر کبھی بھاگنے کی کوشش کرتی تو پکڑی جاتی اور پھر اس کے ساتھ جو وہ کرتے تھے بیان کرنا ہی مشکل ہے۔ کئی کئی گھنٹے وہ زمین سے اٹھ نہیں پاتی تھی۔ پورا جسم نیلا ہوتا تھا۔ ذرا سی انگلی ہلانے پر بھی پورے بدن میں تکلیف کی لہر دوڑ پڑتی تھی۔ اس کی ذات ختم ہورہی تھی۔ لمحہ لمحہ وہ زندگی سے دور جارہی تھی۔ کسی کی قسمت اتنی سفاک ہوسکتی ہے؟ شروع شروع میں وہ سوچا کرتی تھی کہ شاید شوبز جوائن کرکے اس نے اپنی نمائش کردی تھی یہ اس گناہ کی سزا ہے۔ پھر خیال آتا کہ خدا تو گناہوں کی سزا یوں نہیں دیتا۔ اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کی وجہ گناہ نہیں ہوتے۔ وہ مالک رحیم کریم ہے غفور ہے وہ بدلہ نہیں لیا کرتا۔ دن میں ہزاروں سوچیں اس کے دماغ میں آیا کرتی تھیں آہستہ آہستہ وہ بھی ختم ہوگئیں۔ اب اس کو درد برداشت کرنے کی عادت ہوچکی تھی مگر یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ نہایت تکلیف دہ تھا۔ وہ لڑکی جو جسمانی تکلیف سے کبھی آشنا نہ ہوئی تھی تین مہینوں سے ہر لمحہ اس کو برداشت کررہی تھی۔ آغاز میں وہ رویا بھی بہت کرتی تھی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے آنسو بھی خشک ہوگئے تھے۔ اب وہ کوشش کرتی کہ کم سے کم ان ظالموں کے اعتاب کا شکار ہو۔ چپ کرکے جو کام کرنے کو کہتے انہیں سر انجام دیتی رہتی۔

صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتیWhere stories live. Discover now