دسواں باب

792 73 90
                                    

دسواں باب

صبح کے وقت شفق پر آفتاب اپنی تمام وجاہت کے ساتھ نمودار ہوا تھا۔ لاہور خواب خرگوش کے مزے لینے کے بعد اب بیدار ہورہا تھا۔ ذوالقرنین ہاؤس میں ناشتے کی خوشبو پھولوں کی بھینی خوشبو میں رچی بسی چہار سو پھیلی تھی۔

علوینہ جاگنگ کے بعد شاور لیکر یونیورسٹی کے لیے تیار ہورہی تھی جب اس کے فون کی سکرین جگمگائی۔ فون کان سے لگاتے وہ کچھ حیرت سے گویا ہوئی۔

"شہروز، خیریت ہے؟" چند ثانیوں کے وقفے کے بعد اسپیکر میں شہروز خان کی تھوڑی متفکر سی آواز گونجی۔

"آفندی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔"

علوینہ کے لب حیرت میں کھلے لیکن اس کے تاثرات میں کوئی ردوبدل نہ ہوا۔

"اچھا کب۔"

"کل رات میں۔ اگر تم آسکتی ہو تو ابھی ہاسپٹل آجاؤ۔ اب وہ خطرے سے باہر ہے۔ تمہارا پوچھ رہا تھا۔"

علوینہ نے سختی سے آنکھیں میچیں۔ پھر خود کو پرسکون کرتے ہوئے بولی؛ "ابھی تو مجھے یونیورسٹی جانا ہے۔ شام میں آؤں گی۔"

اور شہروز کا جواب سنے بغیر اس نے فون کاٹ دیا۔

______

شام کے پانچ بجے علوینہ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں پہنچی۔ ریسیپشن پر پوچھنے کے بعد وہ ایک پرائیویٹ روم میں داخل ہوئی۔

"علوینہ! " اس کو دیکھ کر شہروز اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے قریب آگیا۔ اس نے ایک مسکراہٹ چہرے پر سجائی اور شہروز کے ساتھ آفندی کی طرف بڑھی۔

"اب کیسے ہیں، آفندی صاحب؟" اس کی آواز میں بظاہر تو کسی قسم کی تلخی کا کوئی عنصر شامل نہیں تھا مگر تھوڑا غور کیا جائے تو لہجہ زہر خند تھا۔ شیریں زہر۔

"زہے نصیب! وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے ۔۔۔ کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں!" آفندی نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔

جب علوینہ نے کوئی جواب نہ دیا اور وہاں سے پیچھے ہٹنے لگی تو آفندی دوبارہ بول اٹھا۔

"ٹائیگرس, بیمار کی عیادت کے لیے آئی ہو ایک گلدستہ ہی لے آتی۔ گلاب کی ایک کلی بھی مجھ جیسے مریض عشق کے لیے کارگر ثابت ہوسکتی تھی مگر تم ٹھہری ظالم حسینہ!" آخر میں اس نے مصنوعی دکھ کا اظہار کیا۔

"آفندی صاحب! ٹانگیں پہلے ہی تڑوا چکے ہیں اب منہ بھی تڑوائیں گے کیا؟" اس کا لہجہ آگ لگانے والا تھا اور آگ لگا گیا تھا۔

آفندی کا چہرہ ہقت کے باعث سرخ ہوگیا تھا۔ علوینہ سرشار سا مسکرائی اور پھر بولی۔

"ویسے بھی آپ کی صحت کے لیے زیادہ بولنا اچھا نہیں۔ مسز آفندی کدھر ہیں؟" پھر وہ دائیں بائیں نظر دوڑانے لگی۔ "خیر۔۔ انہیں میرا سلام کہیے گا۔"

صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتیWhere stories live. Discover now