وہ علوینہ کے کمرے کے باہر پہنچا اور دروازہ دھکیل کر کھولا۔ اب اس کا چہرہ نمایاں کرختگی لیے ہوئے تھا۔ وہ دائیں کروٹ پر لیٹے ہنوز سو رہی تھی۔ لمبے لمبے تین قدم اٹھا کر وہ اس کے سرہانے کے قریب پہنچ چکا تھا۔
"خاتون اٹھیں!" اس کی آواز اونچی تھی۔
علوینہ ہمیشہ سے نیند کی کچی تھی ذرا سی آواز پر آٹھ بیٹھتی تھی۔ اب بھی دوا کا اثر ختم ہوچکا تھا اس لیے فوراً ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں۔
"یہاں اس لیے نہیں لایا آپ کو کہ چوبیس گھنٹے بستر توڑیں، اٹھ کر اپنا کھانا حلال کریں۔" وہ سخت چتونوں سے اسے گھور رہا تھا۔ علوینہ گم سم سی تھی۔ وہ اس کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ڈھونڈ پا رہی تھی اس لیے خاموشی سے اٹھ کر بیٹھی اور اسے تکے گئی۔
"آنکھیں نیچے کرو ورنہ نکال دوں گا۔"
وہ جو یک ٹک اس کو دیکھ رہی تھی فوراً پلکیں جھپک گئی۔ ایک آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر گال پر پھسلا۔ عاہن کی تیز آنکھوں نے اس کو بھی دیکھ لیا۔ اسے یہ سوچ کر ہنسی آئی کہ جنگلی بلی ایک ہی دن میں بھیگی بلی بن گئی تھی۔
"اٹھ جاؤ اب۔" دوبارہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو سارے جسم میں درد کی ایک شدید لہر دوڑ گئی۔ اس کو پھر سے زوروں سے رونا آیا۔ وہ اتنی کمزور کبھی بھی نہیں رہی تھی تو اب کیوں۔ اس کو رونے سے سخت کوفت تھی، لیکن اب۔۔ اب اسے کوفت بھی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ سوائے درد کے، بے تحاشا درد کے، اسے اور کچھ نہیں محسوس ہورہا تھا۔
وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھی جب دروازہ کھول کر چندا اندر داخل ہوئی۔
"علوینہ میڈم!" اس کا لہجہ خاردار تھا۔
علوینہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا مگر کچھ نہ بولی۔
"چلو میرے ساتھ کام کرنا ہے۔"
وہ خاموشی سے اٹھ گئی۔ چندا نے زمین پر ایک بڑے سائز کا جوتا پھینکا جو اس نے پہن لیا۔
اس کی چال میں واضح لڑکھڑاہٹ تھی، جسم میں نقاہت الگ۔
"بھئی بات سن رکھو میری۔ تم جہاں کہیں سے بھی آئی ہو مجھے قطعاً فرق نہیں پڑتا۔ یہاں کی بائی مجھے بننا ہے اب کی دفعہ اور بس۔ میں تمہیں کسی صورت نہیں بائی بننے دوں گی۔ یہ سب تمہیں وینا بائی کہتے ہیں اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ تم خود کو بائی سمجھ لو۔" چندا کہے جا رہی تھی مگر علوینہ نے کوئی جواب نہ دیا۔
"بات سن رہی ہوں نا میری؟" چندا نے رخ اس کی طرف موڑ کر کہا۔علوینہ نے ہاں میں گردن ہلا دی۔ چندا کی کہی کسی بھی بات کی اسے سمجھ نہیں آئی تھی۔
"یہ واشروم ہے۔ اندر میں نے کپڑے ٹانگ دیے ہیں جلدی سے بدل کر آؤ سے پھر میں تمہیں کام بتاتی ہوں۔ صاحب کا خاص حکم ہے۔"
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...