باب نمبر ١٤

715 58 51
                                    

Not edited;
But a very long chapter!
Thanks to those who voted on the previous chapter, those who motivated me to write further and those who added this story to their reading lists^_^_^

.
.
.

"کل میں نے ایک ڈاکومنٹری دیکھی ایک پاکستانی اداکارہ کے بارے میں،علوینہ ذوالقرنین نام ہے اس کا۔" نیلی آنکھوں والی لڑکی نے اپنی ساتھی سے کہا۔

"اچھا۔" کالی مسکراتی آنکھوں والی لڑکی نے دلچسپی سے جواب دیا۔

"اس کے فیچرز بالکل تمہارے جیسے ہیں مجدے۔ اس کے بال سنہری اور تمہارے کالے ہیں اس کی آنکھوں کا رنگ سبز اور تمہاری آنکھیں کالی ہیں۔ باقی تم میں اور اس میں کوئی فرق نہیں۔" اس نے اپنے موبائل سے ایک تصویر نکال کر دکھائی۔

"رینا تمہیں بھول گیا کیا دنیا میں ایک شکل کے سات لوگ ہوتے ہیں۔" مجدے نے شرارت سے کہا۔

"نہیں مجدے۔ وہ بالکل تمہارے جیسی ہے۔ تم اپنے بال ڈائی کروا لو تو بالکل ویسی ہی لگو۔" رینا نے کہا۔"اور تو اور تم فلم انڈسٹری میں تہلکہ مچا سکتی ہو۔ ذرا سوچو." رینا نے ایک ڈرامائی کیفیت کے زیر اثر کہا۔

"بس کردو رینا۔ مجھے کہیں تہلکہ نہیں مچانا۔" مجدے نے لائبریری کے ریکس میں لگی کتابوں سے گرد جھاڑتے ہوئے کہا۔

"مجدےےےےےے۔۔۔" رینا اس کے پیچھے لپکی۔

"مجھے لگتا ہے تم اس کی میلے میں بچھڑی ہوئی بہن ہو۔" رینا نے قیاس آرائی کی۔

"وہ پاکستان سے ہے۔ اس کا نام علوینہ ذوالقرنین ہے۔ میرا نام مجدے ابراہیم ہے۔ میں ترکی سے ہوں۔ ہمارا میلے میں گم ہونے کا جواز بنتا ہی نہیں ہے۔"

"ارے مجدے تم بس ایک چھوٹا سا دعویٰ کردو کہ تم علوینہ ذوالقرنین کی صدیوں پہلے بچھڑی بہن ہو باقی مجھ پہ چھوڑ دو۔ دیکھنا کیسے میں ہم دونوں کو دنوں میں امیر کرتی ہوں." رینا تو اپنی سوچوں میں کسی محل میں بیٹھی تھی۔

"بس کردو رینا۔" مجدے کھڑکی میں کھڑی ہوکر ٹرانسلوانیا کی سڑک پر جانے والے لوگوں کو دیکھنے لگی۔ جن کو اپنی منزل پر پہنچنے کی جلدی تھی۔

سورج کی کرنیں ہر طرف پھیل چکی تھیں۔

مجدے ابراہیم کے علاوہ سب کے لیے زندگی رواں دواں تھی۔

۔
۔
۔
۔

________////////

۔
۔
۔
۔

ذوالقرنین ہاؤس میں قیامت خیز لمحات تھے۔ فائزہ بیگم دونوں ہاتھوں میں سر تھامے گرنے کے سے انداز میں صوفے پر برا جمان تھیں۔

"آنٹی حوصلہ رکھیں پلیز۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔" شہروز کی بڑی بہن بڑے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فائزہ بیگم کو تسلیاں دے رہی تھی۔

صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتیWhere stories live. Discover now