ساتواں باب

818 72 27
                                    

ساتواں باب

میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں
زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں

"شاہ مت کرو، پلیز نہ کرو۔" وہ عورت اس کے پاؤں پکڑے التجا کررہی تھی۔ وہ جھکا اور اس کے بالوں کو مٹھی میں جکڑے پیچھے کو جھٹکا دیا۔

"آہ۔۔۔" ایک دل خراش چیخ اس عورت کے حلق سے نکلی جب سر میں اٹھنے والی تکلیف ناقابلِ برداشت ہوگئی۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو پکڑتے اس نے دوبارہ اٹھ کر اپنے شوہر کے پیچھے جانے کی سعی کی۔ جو لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ہال سے نکل کر اوپری منزل کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔

"ش۔۔۔شاہ۔۔۔" اس کا سانس اٹک رہا تھا۔ قدموں میں جان نہیں رہی تھی۔ دماغ چیخ رہا تھا کہ اس کو روکے۔ دل ڈوب ڈوب کر ابھر رہا تھا۔

"شاہ۔۔۔" اپنے دماغ میں وہ چیخ رہی تھی مگر حقیقت میں اس کے لبوں سے بس سسکیاں نکل رہی تھیں۔ وہ تیسری سیڑھی سے سر کے بل گری تھی۔ اسے لگا تھا اس کے دماغ کی نسیں پھٹ گئی ہیں۔

بس۔۔۔ سب ختم۔۔۔ وہ کچھ نہیں کرسکے گی۔۔۔وہ مرجائے۔۔۔ اس کی روح پرواز کر جائے تو یہ اس کے لیے نعمت ہوگی۔۔۔ دنیا کی بہترین نعمت۔۔۔خدا کی طرف سے انمول تحفہ۔۔۔ اس کا جسم روز کی چیڑ پھاڑ سے بچ جائے گا لیکن نہیں۔۔۔ ابھی وہ نہیں مرسکتی تھی۔۔۔ اس درندہ صفت انسان کو روکنا تھا کچھ بھی کرکے روکنا تھا۔

ایک دم سے اس کے چہرے پر زناٹے دار تھپڑ پڑا تھا۔ وہ درد کی اتنی عادی ہوچکی تھی کی بس پلکیں جھپکیں اور کہنیوں کے بل اٹھی۔ وہ گھٹنوں کے بل جھکا اس کے قریب بیٹھا تھا۔ خشک ہونٹوں کو ایک باریک لکیر کی صورت بنائے، بڑی کالی آنکھیں چندھیائے، انگلی میں پہنے نگینے کو موڑ رہا تھا۔ کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکا، بازوؤں کو کہنیوں تک موڑا، اس کے بازوؤں کی رگیں پھولی ہوئی تھیں۔ گردن اور ماتھے پہ موجود نالیاں تیز ردھم سے ٹک ٹک کر رہی تھیں۔ ماتھے پہ بل پڑے تھے۔ اس نے اپنے سامنے موجود عورت پر، اپنی سرخ انگارہ آنکھوں کو مزید چھوٹا کرتے، ایک متنفر نگاہ ڈالی اور بلند آواز میں دھاڑا،"اگر تم نے اپنی حالت اس قدر قابلِ رحم نہ بنائی ہوتی تو میں کچھ اور سوچتا۔" درمیانی اور شہادت کی انگلی سے ماتھے کو مسلتے، گہری سوچ میں گم ہونے کا تاثر دیتے ہوئے بات جاری کی "اگر پہلے جیسی خوبصورتی برقرار ہوتی تو۔۔۔ بات ہی کچھ اور ہوتی۔ لیکن ۔۔۔تم پر تو مجھے اب رحم بھی نہیں آتا محبت تو بہت دور کی بات ہے۔" ماتھے سے بالوں کو جھٹکتے ہوئے وہ سیدھا کھڑا ہوا اور نیچے لیٹی عورت پر ایک نظر ڈالی جس کی آنکھیں بے آواز آنسو بہا رہی تھیں اور ناقابلِ بیان درد چمک رہا تھا۔

"اب یہ آنکھیں بھی میرا دل موم نہیں کرسکتیں، ڈارلنگ!" اس نے انتہائی خاردار لہجے میں کہا اور اپنے جوتے کی نوک سے اس کی گال کو مسلا جس پر کچھ دیر پہلے تھپڑ مارا تھا اور مسکراتے ہوئے باہر چلا گیا۔ نیچے ساکت پڑے وجود سے ایک آہ بھی نہیں نکلی تھی۔

صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتیWhere stories live. Discover now