آٹھواں بابکمرے میں گھپ اندھیرا تھا سوائے ایک کونے میں پڑے ٹی وی کی سکرین کے، جو جگمگا رہی تھی اور اس میں سے آواز نکل کر بکھر رہی تھی۔ سننے والے کے کانوں میں وہ یوں سنائی دیتی تھی، "میری ڈکشنری میں محبت لفظ exist ہی نہیں کرتا۔"
ذرا رخ موڑ کر سکرین کی روشنی میں سامنے بیٹھے وجود کو دیکھو۔ ہاتھ میں موجود سگریٹ جل رہا تھا تو اس کی آنکھیں دہک رہی تھیں۔ ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ امڈی۔ سگریٹ کو دو انگلیوں کے درمیان مسلا۔ آواز دوبارہ ابھری۔ "کئی لوگ انٹرویو کے لیے وقت مانگ رہے ہیں۔" یہ آواز پہلے والی نسوانی آواز سے مختلف تھی۔
_____
"کئی لوگ انٹرویو کے لیے وقت مانگ رہے ہیں." گلفام نے اطلاع دی۔"فلم کے کتنے ٹریلرز ریلیز ہوئے ہیں ابھی تک؟" علوینہ نے جواباً پوچھا۔
"تین۔۔۔"
"اچھا۔۔۔صرف میرا انٹرویو یا ساری کاسٹ کا؟"
"جیسا آپ چاہو۔۔۔"
"ٹھیک ہے پھر The Fairy Talk کو کل صبح دس بجے کا وقت دے دو۔"
"آپ کو پتہ ہے نا وینا بائی یہ لائیو شو ہے؟" گلفام نے تشویش سے اس کو دیکھا۔
"جانتی ہوں گلفام۔"
"پہلے ہی لائیو شو مت کرو امارا مشورہ ہے مان لو۔"
"جیسے کہا ہے ویسے کرو۔" علوینہ نے تیز آواز میں کہا اور دیوار پر ٹنگی گھڑی کو دیکھا۔ "اور اب جاؤ بہت رات ہوچکی ہے کل ملاقات ہوگی۔"
_______
"ہیلو!" فون میں سے ایک بھاری آواز آرہی تھی۔
"بولو شہروز؟"
"تم کہیں جارہی ہو؟" پوچھا گیا۔
"ہاں۔۔ آج ایک انٹرویو ہے۔" موبائل کندھے اور کان کے درمیان دباتے سونے کی باریک سی بالی کان میں پہنتے جواب دیا گیا۔
"Best of luck and let me know when you'll be free!"
"شیور!" اور ایک غیرارادی مسکان علوینہ کے لبوں پہ چمکی۔
"خدا حافظ ماما!" بلند آواز میں کہتے وہ دروازہ پھلانگتی باہر چلی گئی۔ پیچھے کچن میں موجود فائزہ بیگم نے کھڑکی کے ذریعے اس کو دیکھا اور ڈھیروں بلائیں لیتیں اس کے بہترین نصیب کی دعائیں کرنے لگیں۔
_______
وہ گاڑی سے اتری اور ذکاء آفندی کی ہدایت کے مطابق سیکیورٹی کا عملہ پہلے سے ہی وہاں موجود تھا۔ وہ لوگ اس کے گرد جمگھٹا بناتے ہوئے چلنے لگے۔
"وینا بائی!" گلفام کی آواز پر رکی اور اس کے ساتھ ہی تمام باڈی گارڈز بھی، جو چوکنے ہوئے اطراف کا بھرپور جائزہ لے رہے تھے۔ گلفام کو آتا دیکھ کر راستہ دیا اور وہ علوینہ کے ساتھ چلنے لگا۔
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...