25. م س ا ف ت

584 59 54
                                    

Highly unedited!

ذکاء آفندی، علوینہ کا دایاں بازو دبوچے اس کو گھسیٹ کر راہداری میں دور بڑھ رہا تھا۔ علوینہ رخ موڑ کر عاہن کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ عاہن یک ٹک اسے دیکھتا جارہا تھا۔ پھر وہ جھٹکے سے چہرہ موڑ گئی۔ عاہن نے پلکیں جھپک کر کھولیں تو سامنے کوئی بھی نہ تھا۔

وہ بھی واپس ہال کی طرف مڑ گیا۔ اس کی دماغی صلاحیت مضمحل ہوگئی تھی۔ ایک ایک قدم من من بھاری معلوم ہورہا تھا۔ وہ ہال میں پہنچا تو محفل رقص اپنے عروج پر اور تماشائی ہنوز مست تھے۔

کئی پل وہ علوینہ کے بارے میں سوچتا رہا اسے غصہ آرہا تھا علوینہ آفندی سے مدد کیسے مانگ سکتی ہے۔ پہلے وہ شہزادہ اور اب یہ آفندی۔ کیا اس نے سختی سے مٹھیاں بھنچ لیں۔ رقص ایک مرتبہ پھر ایک نئی رقاصہ اور نئی دھن کے ساتھ شروع ہوا۔

۔
۔
۔
۔

ہال میں موجود پہلے کمرے کا دروازہ کھول کر آفندی اندر داخل ہوا اور ایک جھٹکے سے علوینہ کو نیچے پھینک کر دروازہ بند کردیا۔ علوینہ زمین سے اٹھ کر چوکنا کھڑی تھی۔ وہ جانتی تھی اب اپنی حفاظت اسے خود ہی کرنی تھی۔

"اف ٹائیگریس کیا جلوے تھے، ہاں۔ مزہ آگیا رات کا۔" وہ خباثت سے اس کو دیکھتا ہوا آہستہ آہستہ اس کی جانب قدم بڑھا رہا تھا۔

"آفندی میرے پاس مت آنا۔" وہ سخت آواز میں بولی تھی۔

وہ ہنسنے لگا۔ کمینگی سے بھرپور ایک زوردار قہقہہ۔

"اگر آگیا تو کیا کرلو گی بتاؤ ذرا میں بھی سننا چاہتا ہوں۔"

چوڑیوں اور گجروں سے لدے اپنے دونوں بازو سامنے کرکے وہ رکاوٹ بنانے کی کوشش کررہی تھی۔

اگلے ہی لمحے اس کا بازو آفندی کی آہنی گرفت میں تھا۔ اس کے حلق سے ڈر کے مارے چیخ برآمد ہونے والی تھی جسے وہ بروقت روک گئی۔

ایک ہاتھ سے اس کا بازو دبوچے دوسرے ہاتھ سے آفندی نے اس کا دوپٹہ کھینچا۔ دوپٹہ پنز لگا کر بالوں میں سیٹ کیا گیا تھا جس کے سختی سے کھینچے جانے پر اس کے سر میں شدید ٹیس اٹھی۔

اس کا بھاری دوپٹہ زمین پر جاگرا۔ بھرپور سنگھار کے ساتھ وہ ایک بلاؤز اور چولی میں اس کے سامنے موجود تھی۔

آفندی کی للچائی نظریں اس کے وجود کا احاطہ کرنے لگیں۔

اس کو اپنے آپ سے شدید قسم کی گھن محسوس ہوئی۔

"یا اللہ!" اس کے لبوں سے ایک سسکتی ہوئی آہ ابھری۔

اس نے سختی سے آنکھیں موند لیں اور آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر اس نے چہرے پر بہنے لگے۔

مگر مقابل کو ہوش نہ تھا۔ وہ تو اپنے سامنے موجود اپسرا کے نوخیز حسن میں بری طرح غرق ہوچکا تھا۔

صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتیWhere stories live. Discover now