31. وقت کے فیصلے (II)

698 84 35
                                    

Officially phase 3!

لش پش نہ ویکھ وے اڑیا
ویکھ نہ سندر مکھڑے
ہر مکھڑے دے اندر دل اے
تے ہر دل اندر دکھڑے!

علوینہ نے کسلمندی سے آنکھیں کھولیں اور لکڑیوں سے بنی چھت کو تکنے لگی۔ اس کا سر درد ختم ہوچکا تھا۔ اب وہ اپنی طبیعت میں کافی بہتری محسوس کررہی تھی۔ آہستہ آہستہ وہ بستر میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کی پہلی نظر سامنی دیوار پر ٹنگے باریک لکڑیوں سے بنائے گئے فریم پر پڑی۔ فریم کے کونوں پر سرخ رنگ کے پھول بھی لگائے گئے تھے اور فریم کے درمیان ایک تصویر تھی جس میں وہ لڑکا، ایک آدمی جو یقیناَ فتح محمد تھے، ایک لڑکی جس کے بارے میں علوینہ کا خیال تھا ان کی بیٹی تھی اور ایک عورت تھی۔ تصویر سے نظر ہٹا کر اس نے ایک کھڑکی کو دیکھا جس پر لگے پردے ہوا کی بابت پھڑپھڑا رہے تھے۔ اس نے گرم لحاف میں سے پاؤں نکال کر زمین پر رکھے تو اس کو شدید سردی کا احساس ہوا۔ اس نے نظریں جھکا کر دیکھا اس کے پاؤں کے بالکل قریب زنانہ جوتوں کا ایک جوڑا رکھا گیا تھا۔ جوتوں میں پاؤں اڑس کر وہ کھڑی ہوگئی۔ پاؤں میں اسے ہلکی سی چبھن کا احساس ہوا جس کو نظر انداز کرتی وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی۔

دروازہ کھول کر اس نے باہر قدم رکھا تو اسے سامنے وہی لڑکا اور ایک پچاس سالہ آدمی کرسیوں پر بیٹھے دکھائی دیے۔ علوینہ کو دیکھ کر وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔

"آپ کا پاؤں ٹھیک ہے؟" لڑکے نے اس کی طرف چند قدم بڑھائے۔ وہ ہولے سے صرف اثبات میں سر ہی ہلا سکی۔

"آپ کی طبیعت کیسی ہے اب؟" فتح صاحب نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ اس کا دل ایک دم پسیج آیا۔ دل کو تھپک کر اس نے پلکوں کی بار توڑنے کو بے تاب آنسو آنکھوں میں ہی جذب کرلیے۔

"بہتر ہے۔"

"میں فتح محمد ہوں۔ گلفام نے آپ کے آنے کی اطلاع دی تھی۔ معذرت بیٹے میں کل ایک کام سے باہر گیا ہوا تھا آپ سے پہلے مل نہیں سکا۔" انہوں نے قدرے افسوس سے کہا۔

"کل؟" علوینہ آہستگی سے بڑبڑائی۔

"آپ کل آئی دوپہر میں آئیں تھیں یہاں۔"

اسے تو لگا تھا وہ صرف چند گھنٹے سوئی تھی۔ اس کی سوچ کا تسلسل فتح صاحب کی آواز سے ٹوٹا۔

"یشعر آپی کو واشروم دکھا دو۔"

"بیٹا آپ فریش ہو آؤ تب تک میں آپ کے لیے ناشتہ لگا دیتا ہوں۔" یشعر کو کہنے کے بعد انہوں نے علوینہ کی طرف رخ کیا اور پھر کچن میں چلے گئے۔

علوینہ، یشعر کی تقلید کرتے ہوئے ایک کمرے میں داخل ہوگئی۔ اس نے دیکھا بیڈ پر ایک ادھیڑ عمر عورت آنکھیں موندے لیٹی تھی۔ اس کا چہرہ اور ہاتھ بستر سے باہر تھے اور وہ نالیوں میں جکڑے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ بیڈ کے اطراف میں کئی مشینیں لگی ہوئی تھیں اور چند آئی وہ اسٹینڈ بھی پڑے تھے۔ وہ حیرت سے انہیں دیکھتی رہی۔ یشعر جو کہ دروازہ کھول کر باہر جانے لگا تھا علوینہ کا ارتکاز محسوس کر کے بول اٹھا۔

صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتیWhere stories live. Discover now