Highly unedited!
جون کا مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ مون سون کی ہواؤں کی وجہ سے تمام رات بارش برستی رہی تھی۔ موسلادھار گرج برس کےدوران علوینہ اپنے کمرے کی کھڑکی کھولے بیٹھی رہی تھی۔ اکثر راتیں اس کی آنکھوں میں ہی کٹتی تھیں۔ سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ شاور لیکر اس نے لباس تبدیل کیا اور پھر آئینے کے سامنے جا رکی۔ کتنی دیر بعد وہ اپنا چہرہ تک رہی تھی اسے خود بھی معلوم نہیں تھا۔ بال برش کرکے اس نے اپنے سنہری بالوں کو چٹیا میں باندھا اور خود پر پرفیوم اسپرے کیا۔ اس کی آنکھوں کے گرد گہرے حلقے تھے۔ کچھ دیر وہ اپنی آنکھوں میں دیکھتی رہی کچھ تلاش کررہی تھی شاید۔ مگر اس کی آنکھیں بالکل شفاف تھیں کسی بھی جذبے سے یکسر محروم۔ اس نے کنسیلر پکڑ کر حلقوں کو چھپایا۔ پھر اس کا ہاتھ خود بخود ہلکے گلابی رنگ کے لپ گلوس کی طرف اٹھا۔ خشک لبوں پر ہلکا سا لپ گلوس کا اسٹروک لگا کر اس نے دونوں لبوں کو ایک دوسرے میں پیوست کیا۔ اس کے لبوں پر ہلکا گلابی رنگ چمکنے لگا۔ اب وہ فارغ کھڑی اپنے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔
رکھی اس کے لیے ناشتہ لیکر آئی تھی۔ وہ دروازے میں کھڑی ہوکر ایک بے ساختہ مسکراہٹ سجائے اس کو تک رہی تھی۔ گلفام اس کے عین برابر آکھڑا ہوا۔
"علوینہ میں کتنی تبدیلی آگیا ہے نا ایک ہی دن میں۔" دونوں اس کو ہی دیکھ رہے تھے۔ گلفام کی آواز میں درد نمایاں تھا۔ وہ علوینہ کو کبھی بھی تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا مگر بہت زیادہ دے گیا تھا۔ اتنی زیادہ جس کا مداوا وہ چاہ کر بھی نہیں کرسکتا تھا۔ وہ اس کی خوشی کا باعث نہیں بن سکا تھا یہ سوچ اس کو مزید افسوس میں مبتلا کرتی تھی۔
"اتنی دیر بعد کسی سے بات کرکے اسے اچھا لگا ہوگا۔" گلفام سے کہہ کر رکھی علوینہ کو پکارتی ہوئی کمرے میں داخل ہوگئی۔
"علوینہ!"
گلفام دروازے سے ہی مڑ گیا۔
"یہ میں ناشتہ لیکر آئی ہوں کرلو۔" اس نے درمیانی میز پر ٹرے رکھی۔ علوینہ ڈریسنگ کے سامنے سے ہٹ کر صوفے پر آبیٹھی۔ بغیر کچھ کہے اس نے ٹرے کھسکا کر اپنے سامنے کی اور روٹی کے لقمے توڑنے لگی۔
رکھی کو اس تبدیلی پر بے حد حیرت اور خوشی ہوئی۔ اپنی مسکراہٹ دانتوں تلے دبا کر وہ کھڑکی کی طرف مڑی تاکہ کھڑکی سے پردے ہٹا سکے مگر آج کھڑکی پہلے سے ہی کھلی تھی۔
اس کو خوشی ہوئی کہ علوینہ نے پردے ہٹا دئیے تھے۔ اسے یہ علوینہ کا زندگی کی طرف لوٹنے کا اشارہ لگا مگر اگلے ہی پل اسے پھر دکھ ہوا جب اس نے سلوٹوں سے پاک چادر دیکھی۔ علوینہ کل رات بھی نہیں سوئی تھی۔
کیسے یہ لڑکی اڑتالیس اڑتالیس گھنٹے بغیر سوئے زندہ رہ لیتی ہے۔ رکھی سوچ کر رہ گئی۔اس نے دیکھا علوینہ صرف خالی آدھی روٹی کھا کر اٹھ صوفے سے اٹھ چکی تھی۔ ٹھنڈے پانی کی بوتل اور گلاس اس نے ٹیبل پر ہی رکھ دیا۔ بقایا آدھی روٹی اور آملیٹ اٹھا کر وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...