چھٹا باب
اپنے چکراتے سر کو علوینہ نے دونوں ہاتھوں سے تھام کر گاڑی کے شیشے کے ساتھ لگنے سے بچایا۔
"کیا ہوا ہے گلفام؟"
"گاڑی چلتا کیوں نہیں ہے؟" گلفام نے ساتھ بیٹھے ڈرائیور سے پوچھا۔
"مجھے نہیں پتہ دیکھتا ہوں، سر۔" گلفام ڈرائیور کے ساتھ باہر نکل گیا اور بونٹ کھولے انجن کا جائزہ لینے لگا۔
"یہ ہمارے بس کا نہیں ہے۔ کسی مکینک کو دکھانا پڑے گا۔" شیشہ نیچے کرتے ہوئے ڈرائیور کی آواز علوینہ کے کانوں میں پڑی اور وہ گاڑی سے باہر نکل آئی اور ان دونوں کے پاس جا کھڑی ہوئی۔
"جو بھی کرنا ہے جلدی کرو۔" اس نے بےصبری کے ساتھ رسٹ واچ کو دیکھتے ہوئے کہا جس کی چھوٹی سوئی بارہ پر اور بڑی سوئی چھے پر تھی۔
"میڈم یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔" ڈرائیور نے بونٹ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
"تو میں کیا کروں۔ پہلے دیکھ نہیں سکتے تھے صحیح طریقے سے۔" اس نے شعلہ بار آواز میں کہا۔
"میڈم!" ڈرائیور نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا شروع کیا مگر اپنی بات مکمل نہ کرسکا تھا کیونکہ علوینہ ذوالقرنین نے اپنا کلچ بونٹ پر دے مارا تھا۔ چنگھاڑتی آواز میں وہ غرائی۔ "مجھے ایک گھنٹے کے اندر گھر پہنچنا ہے اس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں سننا۔"
"وینا بائی، غصہ مت کرو۔" گلفام نے اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرم اور صلح جو لہجے میں پکارا۔
اپنے بالوں کو کھینچتی وہ نیم پاگل لگ رہی تھی۔ علوینہ نے بے حد زور سے اس کا بازو جھٹکا اور چند قدم کے فاصلے پر جاکھڑی ہوئی۔
"میں شہروز کو کال کرتی ہوں۔" اس نے موبائل سکرین پر تیز تیز انگلیاں چلاتے باآواز بلند اطلاع دی۔
"ہیلو ہیلو!" اس کی کانپتی ہوئی آواز نے ہانپتے ہوئے پکارا۔ کالی رات کے سناٹے میں ارتعاش پیدا ہوا تھا۔
"شہروز تم ابھی پارٹی میں ہو کیا؟" دوسری طرف سے مثبت جواب پانے پر اس نے بات آگے بڑھائی۔
"ہاں کیوں کیا ہوا؟" شہروز نے بلند آواز میں جواب دیا پارٹی کا سر درد لگا دینے والا شور ہنوز جاری وساری تھا۔
"گاڑی خراب ہوگئی ہے۔" اس نے بائیں ہاتھ سے موبائل پکڑے اور دائیں ہاتھ سے ماتھا مسلتے ہوئے صورتحال سے متعلق آگاہی دی۔
"پریشان نہ ہو۔ بتاؤ تم اس وقت کہاں ہو؟"
علوینہ کے بتانے پر لائن کے دوسری طرف موجود شخص کی مضطرب آواز آئی۔ "میں نکلنے لگا ہوں۔ وہاں تک آنے میں زیادہ سے زیادہ پچاس منٹ لگاوں گا تم گاڑی میں بیٹھو اور فکر نہ کرو۔ اوکے؟"
"لیکن یہ تو بہت لیٹ ہو جائے گا شہروز۔" اس نے لمبی سانس خارج کی۔
"میں کسی مکینک سے بھی رابطہ کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔" اس نے حوصلہ دلایا۔ "گلفام کدھر ہے میری اس سے بات کرواؤ."
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...