اس کی ٹانگیں ٹیبل سے نیچے لٹک رہی تھیں۔ دونوں ہاتھوں کو سینے پر جمائے وہ سانس لینے کی جدو جہد میں لگی تھی۔ اسے بازو سے کھینچ کر وہ دوبارہ بالکل اپنے سامنے کرچکا تھا۔
"دور ہٹو!" اس کے سینے پر زور سے ہاتھ مارتی وہ چلائی لیکن مقابل ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس کی انگلیاں علوینہ کے بازوؤں میں دھنس رہی تھیں۔
"عاہن میرے قریب مت آؤ." اس نے اپنے گھٹنے سے اس کی حرکت کرتی ٹانگوں پر زور دیا اور ایک ہاتھ سے اس کے بال مٹھی میں قید کر کے پیچھے کو کھینچے۔
بے اختیار ایک سسکاری اس کے منہ سے نکلی۔
"قریب آچکا ہوں۔" اس پر مکمل طرح قابو پاتے ہوئے اب وہ اس کی گردن پر جھکا تھا۔ لال دھاریوں سے بھری آنکھیں اوپر کیے وہ اس کی بند آنکھوں کو دیکھ رہا تھا جو ایک جھٹکے سے کھلیں اور ساتھ ہی اس کے بال اس لڑکی کے ہاتھ میں تھے جنہیں کھینچ کر اس نے مقابل کو خود سے دور ہٹانا چاہا مگر ناکام رہی۔
"نکاح کرو مجھ سے۔"
وہ بڑی بےخوفی سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بولی۔
چند ساعتیں خاموشی کی نذر ہوگئیں پھر وہ ایک دم سے ہنستا ہوا پیچھے ہٹا۔
"واٹ ڈو یو مین؟ نکاح کرلوں تم سے؟" انداز سراسر تضحیک آمیز تھا۔
ایک پل کے لیے علوینہ کی دنیا دھل گئی۔
"تم نے کہا تھا تم محبت کرتے ہو مجھ سے۔" وہ گویا تصدیق چاہ رہی تھی۔
"کہا ہوگا۔" لاپرواہی سے کندھے اچکائے گئے۔ "میں اکثر لڑکیوں کو کہتا رہتا ہوں۔"
"تم نے مجھے کڈنیپ کیوں کیا؟" وہ بے یقین تھی۔
"کم از کم نکاح کرنے کے لیے تمہیں کڈنیپ نہیں کیا۔" اس کا لہجہ اب غصے سے مفقود تھا۔
"خاتون اگر تم مجھے سیدھے طریقے سے جواب دیتی تو میں بھی سیدھا طریقہ اختیار کرتا مگر اب جس کام کے لیے تم مجھے نکاح کی آفر کررہی ہو اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مجھے یہ عذاب عظیم پالنے کی ضرورت نہیں۔" اس کا ہاتھ دوبارہ اس کی گردن کے عقبی حصے پہ جا ٹھہرا زور ڈال کر وہ اس کو پیچھے کی جانب جھکانے لگا۔ اپنا چہرہ اس کے چہرے کے انتہائی قریب لایا۔ وہ اس کے جسم سے اٹھنے والے پرفیوم کو موثر طریقے سے محسوس کرسکتا تھا۔ "میرے پاس ہو میرے قبضے میں ہو۔ اب تمہیں استعمال کرنے کے لیے مجھے نکاح کی ضرورت نہیں مائنڈ اٹ۔" ایک جھٹکے سے اسے چھوڑ کر وہ پیچھے ہوا۔
اس کی باتیں دماغ میں سوچ کر اس کو لگا اس کی تمام شریانیں بند ہو جائیں گی اور تمام رگیں پھٹ جائیں گی۔ آنسو کا ایک قطرہ اس کی آنکھ سے نکل کر گردن کی جانب چپکے بالوں میں غائب ہوگیا.
"اس کو لیکر جاؤ یہاں سے۔" باہر کھڑے گارڈ کو کہہ کر خود وہ فارم ہاؤس سے باہر نکل گیا۔
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...