پانچواں باب:
"میری آنکھوں کے جادو سے شاید تم ناواقف ہو
جس پر مجھ کو پیار آجائے اس کو پاگل کر دیتا ہوںچھوڑ کے مجھ کو جانے والا لوٹ کے واپس آئے گا
دائیں بائیں آگ لگا کر آگے جنگل کر دیتا ہوں""آہ! ہاؤ رومینٹک!" لہک لہک کر گانے کے بعد سعدیہ نے ایک حسین خواب کی سی کیفیت میں گھرے خود ہی تبصرہ کیا۔
"تھرڈ کلاس پوئیٹری بھی تمہیں رومینس لگتا ہے...چچ چچ۔ !what a bad taste" علوینہ نے مصنوعی افسوس کا اظہار کیا۔
"شٹ اپ! یہ تھرڈ کلاس نہیں ہے۔"
علوینہ ہنسنے لگی۔"ویسے یہ پھول اور اتنی رومینٹک شاعری کون بھیجتا ہے؟ بتاؤ ذرا۔" سعدیہ نے علوینہ کو چھیڑا۔
"مجھے کیا پتہ۔ دو دن میں مجھے تین دفعہ یہ پھول مل چکے ہیں۔"
علوینہ نے سعدیہ کے ہاتھ سے کارڈ پکڑا اور اس کا جائزہ لینے لگی۔ اس کے اوپر شعر کو علاوہ کچھ بھی نہیں لکھا تھا۔
کارڈ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا نیچے زمین پر گرا تھا۔ سعدیہ کی تاسف بھری نگاہوں نے اس کا پیچھا کیا تھا اور توہینِ شاعری و الفت پر وہ کلس کر رہ گئی تھی۔
رات والا کارڈ علوینہ کے ذہن میں آیا تھا اور اس نے فوراً سر جھٹکا۔
~~~~
"علوینہ کیا تم تیار ہو؟" شہروز کی آواز فون کے اسپیکر میں سے گونج رہی تھی۔
"ہاں بس جیولری وغیرہ پہننا باقی ہے۔"
"تو کیا میں تمہیں لینے کے لیے آؤں؟"
"نہیں بہت شکریہ۔ میں گلفام ساتھ آؤں گی۔"
"اوکے پھر جلدی ملتے ہیں۔ ٹیک کیئر۔"
علوینہ شیشے کے سامنے کھڑی کانوں میں بندے پہن رہی تھی۔ اس نے بلیک کلر میں سلک کی ساڑھی پہن رکھی تھی۔ بلاؤز کا گلا ب شکل میں اس کے کندھوں تک تھا اور بازو چوڑی دار تھے۔ آنکھوں پر بلیک اسموکی میک اپ اور سرخ لپ اسٹک اس کے عارض کو نکھار رہی تھی۔
"علوینہ میڈم، گلفام سر باہر آگئے ہیں۔" میک اپ آرٹسٹ نے اطلاع کی۔
"بھیج دو اسے اندر۔"
"جی بہتر۔"
علوینہ اپنے بلیک نیل پالش لگے پیڈی کیورڈ سرخ وسفید پاؤں میں پہنی اونچی بلیک ہیل کے اسٹریپ بند کررہی تھی جب گلفام اندر داخل ہوا۔
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ آج تو بجلیاں گرائی جائیں گی۔" گلفام نے ہاتھ کے اشارے سے اس کی بلائیں لیں جس پر علوینہ مسکرادی۔ قیمتی موتی لگا کلچ پکڑے وہ اٹھی اور آئینے میں دیکھنے لگی۔ اس کے سنہری بالوں کے کرلز اس کے شانوں پر گرے تھے۔
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...