34. عازم سفر

683 75 64
                                    

Highly unedited!

"کیا آپ کو فرہاد شاہ ولد نصیر شاہ سے مبلغ تین کروڑ روپے سکہ رائج الوقت اور سو تولے سونا نکاح قبول ہے؟"

اس نام پہ وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی۔

اس کے لیے یہ زندگی اور موت کا فیصلہ تھا۔

"قبول ہے۔"

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟"

نکاح اس کی ذات پر لگا کیچڑ دھو ڈالتا یا اس کے دامن کو مزید داغدار کرتا اس کا فیصلہ وقت کو کرنا تھا۔

یقیناً وقت کے فیصلے ہی بہترین ہوا کرتے ہیں۔

"قبول ہے۔"

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟" امام صاحب ایک مرتبہ پھر گویا ہوئے۔

آج اس کا نکاح تھا لیکن عروسی لباس ندارد۔ اس کے سر پر تو سرخ چادر تک نہ تھی۔

کیا آئندہ بھی اس کی زندگی کو کانٹوں کی سیج ہی بنے رہنا تھا یا اس کے مقدر میں بھی گل لالہ تھے؟

اس بات کا فیصلہ بھی وقت ہی کو کرنا تھا۔

"قبول ہے۔"

اور وقت نے مقدمہ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔

اس کے پاس کوئی نہ تھا جو اس کو گلے لگا کر مبارکباد دیتا۔ نہ ماں، نہ بہن ،نہ کوئی دوست۔ اب اس کے نصیب میں باپ کا شفقت بھرا ھاتھ بھی نہیں رہا تھا کہ وہ اس کے سر پر رکھتے اور اس کو تسلی و تشفی ہوتی۔

یہی سب سوچتے وہ اس آفس نما کمرے سے باہر نکلی اور راہداری میں چلنے لگی۔

شاہ،امام صاحب اور گواہان پہلے ہی باہر جاچکے تھے۔

_____________


بارہ گھنٹے قبل۔۔

چاروں طرف فجر کی آذانیں گونج رہی تھیں جب وہ لاہور لاری اڈے پر بس سے اتری۔ سحری وہ گاڑی میں ہی پانی پی کے کرچکی تھی۔ یادگار کے پار ایک دکان سے اس نے سعدیہ کو کال ملائی اور پھر باہر آکر اس کا انتظار کرنے لگی۔ آدھے گھنٹے بعد سعدیہ وہاں آ پہنچی۔

نقاب اوڑھے علوینہ کو دیکھتے ہی اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس کا دل چاہا فوراً علوینہ کو اپنے سینے میں بھنچ لے مگر علوینہ کی ہدایت اس کے ذہن میں کندہ تھی۔ اپنے جذبات پر قابو پا کر وہ علوینہ کے سامنے سے ایسے گزری جیسے اسے جانتی ہی نہ ہو بس کوئی عام راہدار ہو۔ مگر اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے وہ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی یو ایس بی تھما چکی تھی جس میں علوینہ کی منگوائی گئی تمام معلومات محفوظ تھیں۔

تمام وقت علوینہ نظریں جھکائے بیٹھی رہی۔ جب سعدیہ یادگار کے پچھلے حصے میں گم ہوگئی تو علوینہ یو ایس بی کو پرس میں ڈال کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

ایک رکشہ لیکر وہ اس میں سوار ہوگئی۔ اب اس کا رخ وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب تھا۔

اس کی معلومات کے مطابق عاہن وزیر اعلیٰ ہاؤس میں نہیں رہتا تھا۔ وہاں وزیر اعلیٰ اکیلا رہائش پذیر تھا۔

صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتیWhere stories live. Discover now