اپنے حواس میں لوٹنے کے بعد عاہن تن فن کرتا ہوا آفس میں داخل ہوا۔ جہاں علوینہ بڑی طمانیت سے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھی تھی، گارڈز اس کے پیچھے کھڑے تھے۔
"انہیں باہر بھیجو۔" وہ پھنکارا۔
علوینہ نے آہستگی سے بائیں ابرو اچکائی۔ "شاہ صاحب بیٹھ جائیں مجھے کچھ بہت ضروری باتیں کرتی ہیں۔" اس کا لہجہ نہایت معتدل تھا۔ مگر عاہن کو آگ لگا رہا تھا۔
"علوینہ میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں انہیں باہر بھیجو پھر ہی بات ہوگی۔" اس کی آواز میں غراہٹ تھی۔
علوینہ نے ایک آسودہ مسکان لبوں پر سجا کر اس کے دھواں دھواں ہوتے چہرے کو دیکھا۔
"Your loss Mr. Shah!
(میری بات نہ سن کر آپ نے نے خود اپنا نقصان کیا ہے۔)" کندھے اچکا کر کہتے ہوئے وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ گارڈز پہلے ہی چوکس کھڑے تھے۔ اس کے اٹھتے ہی وہ بھی حرکت میں آگئے۔علوینہ دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی جب آگے بڑھ کر عاہن نے اس کی کلائی سختی سے تھام لی۔
علوینہ پلک بھی نہیں جھپک سکی تھی کہ تمام گارڈز عاہن کی طرف اپنی پستولوں کا رخ کر چکے تھے۔ علوینہ کو تھوڑی حیرت ہوئی، وزیر اعلیٰ کے گارڈز وزیر اعلیٰ کے بیٹے پر حملہ کرنے کو تیار تھے، علوینہ نے ستائش سے دونوں بھنویں اچکائیں۔ اس نے سر گھما کر گارڈز کی طرف دیکھا۔ اس کے تین اطراف گارڈز جمع تھے اور اس کے سامنے عاہن کھڑا تھا۔
عاہن کا جبڑا تھرک رہا تھا، سیاہ آنکھوں میں جنون ہلکورے لے رہا تھا۔ علوینہ کے لبوں پر ایک خوبصورت مسکراہٹ ابھری۔
"شاہ صاحب ہاتھ چھوڑ دیں۔" اس نے ہاتھ چھڑوانے کے لیے کوئی مزاحمت کیے بغیر کہا۔
"نہیں چھوڑوں گا کیا کرلو گی؟" عاہن نے غصیلے لہجے میں کہا۔ "تمہارے گارڈز کیا کرلیں گے؟" اب وہ طنزیہ ہنس رہا تھا۔
"شوٹ۔" علوینہ کا یک لفظی حکم آیا تھا اور اگلے ہی پل عاہن اپنے بازو کو تھام چکا تھا۔ علوینہ کے عین دائیں کندھے کے برابر کھڑے گارڈ نے عاہن کے بازو پر فائر کیا تھا۔
"That was a nice shot!
(یہ ایک اچھا نشانہ تھا۔)" علوینہ نے مسکرا کر تالی بجا کے گارڈ کو داد دی اور پھر عاہن کو دیکھا۔اس کی سرخ ڈوروں سے بھری آنکھیں حیرت انگیز حد تک پھیلی ہوئی تھیں۔ بازو سے خون نکل کر اس کے سیاہ کوٹ میں جذب ہورہا تھا۔ چند ایک بوندیں نیچے زمین پر گری تھیں۔
"Until next time!"
(اگلی ملاقات تک!)" اس کی طرف ایک بھرپور مسکراہٹ اچھالتے ہوئے وہ آفس سے باہر نکل گئی۔ پیچھے بھاری بوٹوں کی آواز سے پتہ چل رہا تھا گارڈز اس کی تقلید میں چل رہے تھے۔__________
"بات سنیں۔" وہ گاڑی میں بیٹھی وزیر اعلیٰ ہاؤس جا رہی تھی جب اس نے ڈرائیور کو مخاطب کیا۔
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...