29. م س ا ف ت

681 89 53
                                    

Highly unedited:

کھڑکی کے ساتھ سر ٹکائے وہ مری کی بل کھاتی سڑکوں کے اطراف لگے بلند و بالا درختوں کو تک رہی تھی۔ پھر اس کی نظریں دور گہرائی پر گئیں جہاں لاتعداد مکانات بنے تھے۔ وہ تمام رات سفر میں رہی تھی۔ اب سورج بادلوں کے پیچھے ڈوب رہا تھا۔ گاڑی اسٹیشن پر رکی۔ تمام مسافر باہر نکل گئے۔ اس نے سیٹ کے اوپر بنے خانے میں سے اپنا بیگ نکالا اور چہرے پر دوپٹہ ٹھیک سے پھیلا کر وہ گاڑی سے نکل آئی۔ اسٹینڈ سے نکل کر وہ مین روڈ پر چلنے لگی۔ سڑک کے ایک جانب بلند و بالا پہاڑ تھے اور دوسری جانب جنگلہ لگا تھا اور زمین نشیب کی طرف جاتی تھی۔ سڑک پر گاڑیوں کا شدید رش تھا اور سیاحوں کا ہجوم۔ کسی پر بھی دھیان دیے بغیر وہ سیدھ میں چلتی رہی۔

کچھ دور اسے ایک ہوٹل کا بورڈ دکھائی دیا وہ اس جانب بڑھ گئی۔ ریسیپشن پر سرخ و سفید رنگت لیے اسی کی عمر کا ایک لڑکا کھڑا تھا۔

"جی بی بی!" علوینہ کو دروازے میں کھڑا دیکھ کر اس نے متوجہ کیا۔

"مجھے ایک کمرہ چاہیے۔" اس نے لڑکے کے سامنے کھڑے ہوکر کہا۔

"تم اکیلا ہے؟" لڑکے نے اپنے مخصوص لہجے میں دریافت کیا۔ وہ تنقیدی نظروں سے علوینہ کو دیکھنے لگا جس کی صرف آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔ باقی چہرہ اس نے نقاب سے ڈھانپ رکھا تھا۔

علوینہ نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

"کتنے رات کے لیے؟" اس نے پوچھا۔

"آج رات۔"

"ٹھیک ہے۔ تین ہزار روپے دے دو۔"

علوینہ نے اپنے ہاتھ میں موجود پرس میں سے تین ہزار نکال کر لڑکے کی طرف بڑھا دیے۔

"یہ لو چابی۔ تیسرے منزل پر روم نمبر 135۔" علوینہ چابی تھام کر ریسیپشن کے سامنے بنی سیڑھیوں پر چڑھ گئی۔

جون کے ماہ میں مری والوں کے لیے تو موسم اچھا تھا مگر علوینہ کو سردی کا احساس ہورہا تھا۔ سیڑھیاں اترنے والے کئی لوگوں کی نظریں اس نے خود پر محسوس کیں۔ وہ تیز تیز سیڑھیاں چڑھنے لگی اپنے کمرے کے سامنے جا کر ہی دم لیا۔ اس کا سانس پھول چکا تھا۔ اسے آکسیجن کی شدید کمی کا احساس ہورہا تھا۔ کپکپاتے ہاتھوں سے دروازہ ان لاک کرکے وہ اندر داخل ہوئی اور دوبارہ دروازہ بند کر دیا۔ دروازے کے بالکل سامنے دو سنگل بیڈ لگے تھے۔ وہ ایک پر جا کر بیٹھ گئی اور دوسرے پر بیگ رکھ دیا۔ دوپٹہ اتار کر اس نے بیگ کے ساتھ ہی رکھ دیا۔ پھر بیگ میں موجود پانی کی بوتل نکال کر لبوں سے لگائی اور بوتل خالی ہوگئی۔ خالی بوتل اس نے دوبارہ بیگ میں ڈال دی۔ اب اسے گرمی کا احساس ہورہا تھا۔

پرس میں سے موبائل نکال کر اس نے وقت دیکھا۔ شام کے سات بج رہے تھے۔ اس نے گلفام کا نمبر کھولا۔ وہ اسے کال ملانے لگی تھی مگر پھر موبائل بند کرکے رکھ دیا۔

صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتیWhere stories live. Discover now