First of all I apologize for posting so late I had gone to my khala's place :)
Highly unedited! Posting a draft (I do that always duh)
-----------------------------------------------------------------
ہر گھڑی بدل رہی ہے روپ زندگی
چھاؤں ہے کبھی کبھی ہے دھوپ زندگی
ہر پل یہاں جی بھر جیو
جو ہے سماں کل ہو نہ ہوسونو نگم کی مترنم آواز فضا میں خوش رنگ جلترنگ بکھیر رہی تھی۔ آفتاب سرمئی و سفید بادلوں کے پیچھے چھپا تھا۔ صحن کے درمیان میں یشعر لکڑیاں بکھیر کر منہا کے لیے ٹری ہاؤس بنانے میں مصروف تھا۔ کرسی پر علوینہ بیٹھی لہسن چھیل رہی تھی۔ کھانا بنانے میں وہ یشعر اور فتح محمد کی مدد کیا کرتی تھی اور کافی حد تک سیکھ بھی چکی تھی۔ منہا، رامین کے پاس سورہی تھی۔
اسی اثناء میں فتح محمد گھر میں داخل ہوئے۔
"السلام علیکم!" علوینہ نے سلام میں پہل کی۔ مسکرا کر انہوں نے سلام کا جواب دیا اور گھوڑے سے شکار کردہ موٹے تازے ہرن اتارے۔
"آپ لوگ شکار پر نہیں گئے؟" فتح صاحب علوینہ کے قریب ہی ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔
"آپ کا انتظار کررہے تھے آج ہمارا ارادہ بازار جانے کا تھا۔" جواب یشعر کی طرف سے آیا تھا۔ جب سے علوینہ کو گھوڑا تحفے میں ملا تھا تب سے وہ گھڑسواری، نیزہ بازی، تیر کمان کا استعمال اور شکار سیکھ رہی تھی۔
"یہ تو بہت اچھا ہے۔ کل پہلا روزہ ہے، خریداری کرلینا صحیح سے۔"
"رمضان مبارک۔" یشعر چہکا۔
"خیر مبارک۔" علوینہ اور فتح محمد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
"آپی جلدی کریں میں عقرب (یشعر کا سفید گھوڑا) اور حزقی ایل (Ezekiel علوینہ کا سیاہ گھوڑا) کو نکالتا ہوں۔"
___________
علوینہ اور یشعر بازار پہنچ چکے تھے۔ سب سے پہلے ایک قصاب کی دکان پر ہرن بیچ کر اس سے نقد قیمت وصول کی، پھر گھوڑوں کو قصاب کے پاس ہی باندھ کر وہ دونوں ضروریات زندگی کا سامان خریدنے کے لیے بازار میں داخل ہوگئے۔ علوینہ نے سیاہ شلوار قمیض کے ساتھ سیاہ چادر اوڑھ رکھی تھی اور چہرہ نقاب کے پیچھے ڈھکا تھا۔ یشعر نے سفید شلوار قمیض زیب تن کی تھی۔
"تم اپنا چہرہ کیوں نہیں ڈھانپ رہے؟" علوینہ نے اسے ملامتی نظروں سے دیکھا تھا۔ یشعر بے حد حیران ہوا۔
"ارے میں کیوں چہرہ ڈھانپنے لگا؟"
"کوئی تمہیں پہچان لے گا۔"
"ہم مین سٹی (مرکزی شہر) میں نہیں ہیں۔ یہ جگہ ایک قسم کی بلیک مارکیٹ ہے یہاں بہت کم لوگ آتے ہیں اور غیر قانونی طور پر چیزیں خریدتے اور بیچتے ہیں جیسے ابھی ابھی ہم نے ہرن بیچے۔ عام لوگوں کو شکار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ illegal ہے۔"
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...