فنکشن ختم ہونے کے بعد وہ تھکی ہاری گھر پہنچی۔ رات کا تیسرا پہر شروع تھا۔ کمرے میں جاکر لباس تبدیل کیا اور بستر پر لیٹ گئی۔ خوشی ہی ایسی تھی کہ تھکاوٹ کے باوجود وہ سو نہ سکی۔ یہ احساس حسین تھا، نیا تھا مگر دلفریب تھا۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کو محبت ہوسکتی ہے۔ نہیں یہ محبت نہیں۔ اس نے خودی درستگی کی۔ لیکن یہ بے نام جذبہ، جو اس کے معصوم دل میں پنپ رہا تھا اس کے دل کو ایک نئی ڈگر پر لے جانے کی بھرپور کوشش میں تھا اور قدرے کامیاب بھی ہوچکا تھا۔
وہ انیس سال کی لڑکی تھی، جوبن ابھی شروع ہوا تھا۔ اور کافی کامیابیاں سمیٹ چکی تھی۔ زندگی نے کبھی اس کو تلخ حالات نہیں دکھائے تھے۔ فطرتاً وہ کم گو، صاف گو اور ذہین تھی، مگر ظریف حالات کا مقابلہ اس نے ابھی تک نہیں کیا تھا۔ اس کا حسن اور ذہانت و قابلیت اس کو کامیاب کرواتی آئی تھی مگر۔۔ زندگی کے اصل مقابلوں میں یہ کام نہیں آتے۔ اور اصل مقابلے اس کے حصے میں ابھی تک آئے ہی نہ تھے۔
پندرہ سال کی عمر تک اس کا مقصد صرف امتحانات میں اول آنا تھا۔ سولہ سال کی عمر میں اس کا رجحان ایکٹنگ کی طرف ہوا۔ آہستہ آہستہ یہ پسندیدگی جنون میں بدل گئی۔ قسمت کی مہربانی, والدین کا بھرپور ساتھ اور اس کی صلاحیت اس کو یہاں بھی کامیاب کروا گئی۔
اب بیس کی ہونے والی تھی اور ایک کامیاب فلم میں ہیروئن کا رول ادا کرچکی تھی۔ آج منگنی بھی ہوگئی، جلد شادی بھی ہوجائے گی، زندگی کس قدر آسان لگ رہی تھی۔ آل سیٹ!
مگر کیا زندگی بھی کبھی آسان ہوئی ہے؟
۔
۔
۔منگنی کے ایک ہفتے بعد وہ شام کے وقت لان میں بیٹھی موبائل پر میلز چیک کررہی تھی۔ کافی جگہوں سے اس کو کام کی آفرز آرہی تھیں اور جن کے ساتھ کام کرنے میں اس کو دلچسپی تھی ان کو کہہ رہی تھی کی وہ چھ ماہ بعد ان سے رابطہ کرے گی۔ باقی تمام میلز کے لیے وہ گلفام کو ریفر کردیتی تھی۔
آفندی کی طرف سے کوئی خبر نہ ملی تھی، نہ اس نے رابطہ کرنے کی کوشش کی نہ دوبارہ علوینہ اس کی تیمارداری کے لیے گئی۔
ایک ماہ بعد اس کے فائینل ایگزامز تھے اور ان کے دو ماہ بعد اس کی اور شہروز کی شادی ہونا طے پائی تھی۔ شہروز سے بھی اس کی وقتاً فوقتاً بات ہوجایا کرتی تھی۔
"علوینہ ذرا پودوں کو پانی تو دے دو!" فائزہ بیگم نے کچن کی کھڑکی جو لان میں کھلتی تھی، ادھر سے آواز لگائی۔
"اچھا۔"
"اور اپنے بابا کو فون کر کے پوچھو وہ کب تک آئیں گے؟" وہ پائپ اٹھانے کی غرض سے ٹونٹی کی طرف جارہی تھی، فائزہ بیگم کی آواز پہ پلٹی، میز سے فون اٹھایا اور ذوالقرنین صاحب کو کال ملائی۔ ذوالقرنین صاحب کشف لوگوں کو ائیر پورٹ پر چھوڑنے گئے ہوئے تھے۔
"بابا اب تک تو آپ کو واپس پہنچ جانا چاہیے تھا." وہ تشویش سے کہہ رہی تھی۔
"ہاں بس دس منٹ میں پہنچتا ہوں۔"
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...