مرشد ہمارے ورثے میں کچھ نہیں سو ہم
بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ جائیں گے_________
رات چہار سو اندھیرا پھیلائے بڑے تنفر سے برا جمان تھی۔ لاہور مرکزی تھانے کی حدود میں بھی خاموشی کا راج تھا ماسوا ایک سیل کے۔ جس کے اندر آفندی کو کرسی پر باندھ کر مارا جا رہا تھا۔ حسن غصے میں انسپکٹرز کو فون کر کے علوینہ کے بارے میں اطلاع لے رہا تھا مگر کوئی بھی اسے ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا۔ شہروز سلاخوں کے سامنے دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا تھا۔ آفندی کی باتیں اس کے ذہن میں گردش کررہی تھیں جو شروع سے یہی کہتا رہا تھا کہ اسے علوینہ کے بارے میں کچھ نہیں پتہ نہ اس کی گمشدگی میں اس کا کوئی ہاتھ ہے۔
"چھوڑ دو اسے۔" شہروز نے آفندی کو پیٹنے والے انسپکٹر کو منع کیا۔ انسپکٹر ہاتھ روک کر حیرت سے شہروز کو تکنے لگا۔
"کیوں جناب؟"
شہروز نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ آفندی کو دیکھ رہا تھا جس کا جسم جگہ جگہ سے بری طرح زخمی تھا۔ ٹانگ کا پلاسٹر بھی کھل رہا تھا۔ شہروز کو بے اختیار جھرجھری سی آئی۔
"دستگیر اسے ہسپتال پہنچاؤ اور گھر والوں کو بھی اطلاع کردو۔" حسن نے پیچھے سے آکر شہروز کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
اب حیران ہونے کی باری شہروز کی تھی۔ حسن معزرت خواہانہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ "یار کوئی امیر زادہ اپنے دوستوں کے ساتھ جا رہا تھا۔ میرے حکم کے مطابق انسپکٹر نے اس کو بھی گاڑی چیک کروانے کا کہا۔ ابھی ابھی آئی جی کا فون آیا تھا انسپکٹر کو معطل کردیا اور میرا ٹرانسفر رحیم یار خان ہوگیا مجھےصبح دس بجے ادھر رپورٹ کرنا۔ ابھی نکلنا پڑے گا۔" شہروز کچھ بولنے کے لیے لب کھولنے لگا کہ حسن جلدی سے بولا۔ "یار میرے سے جو ہو سکے گا میں کروں گا۔ چند ایک دوست ہیں میں ان کے ذمے یہ کام لگا جاتا ہوں۔ خود بھی میں کوشش کروں گا چکر لگاتا رہوں۔"
حسن اس کا کندھا تھپتھپا کر اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا۔
شہروز کا سر چکرانے لگا۔ دیوار کو تھام کر وہ کھڑا ہوا۔ آفندی کو دو کانسٹیبل لے کر جارہے تھے۔ وہ بھی بے ہوش ہوچکا تھا۔
اسی اثناء میں شہروز کا فون بج اٹھا۔ اس نے کالر آئی ڈی دیکھے بغیر کال پک کر کے فون کان کو لگایا۔
"Mr. Khan please check your email. Thank you."
(مسٹر خان براہِ کرم اپنا ای میل چیک کریں۔ شکریہ.)
کمپیوٹر کی آواز میں ایک لڑکی بول رہی تھی۔ اس کی بات کے ختم ہوتے ہی کال کٹ گئی۔ شہروز نے نمبر دیکھنا چاہا تو سکرین پر پرائیویٹ نمبر لکھا آیا۔ اس نے جلدی سے ای میل کھولا۔
کسی لوکل ویب سائٹ سے اس کے پرائیویٹ ایڈریس پر ایک میل ارسال کی گئی تھی۔ اس نے جلدی سے کھولی اور سامنے موجود تصویر دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوگئے۔
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...