21. ت ا ر ی ک ی

537 56 57
                                    

21. ت ا ر ی ک ی

اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ یقیناً رات کا وقت تھا۔ چند لمحے اس کا دماغ شل رہا وہ جاننا چاہتی تھی کہ وہ کہاں تھی۔ یہ تجسس بھی زیادہ دیر تک قائم نہ رہا، حقیقت اس پر کھل گئی، جب اس کے کانوں میں موسیقی کی بلند آواز گونجی۔ واہ واہ کے نعرے بھی سنائی دیے۔ اس کا تمام بدن لرز گیا۔ وہ کوٹھے پر تھی۔

وہ اٹھ بیٹھی۔ دونوں گھٹنے سینے کے ساتھ ٹکا کر اس نے ان کے گرد بازو لپیٹے اور پیچھے کو ہوکر سمٹ کر بیٹھ گئی۔ اس کا زور زور سے چیخنے کا من کررہا تھا۔ افسوس ہورہا تھا، اپنی قسمت کی ناتوانی پر۔ وقت کے کھیلوں نے اسے چکما دیا تھا، وہ وقت کو بھی اپنی مرضی سے موڑنے والی لڑکی تھی اور اب وقت سے شکست کھا چکی تھی۔ یقیناً زندگی بے رحمی کا لبادہ اوڑھے تھی۔

کتنے ہی لمحے وہ یوں بیٹھی سسکتی رہی۔ نامعلوم کب لیکن اس کی آنکھ لگ گئی۔

۔
۔
۔

"جی صاحب!" ایک بڑے سے سفید سنگ مرمر کے بنے ہال میں سے گزرتے ہوئے گلفام فون پر بات کررہا تھا۔

"جی صاحب! میں بس واپس آرہا ہوں۔ جی ٹھیک ہے بس پندرہ منٹ تک نکلتا ہوں۔"

ہال کراس کرکے اب وہ ایک راہداری میں داخل ہوچکا تھا۔ ایک بڑے سے سنہری دروازے کے باہر وہ رکا۔ موبائل قمیض کی جیب میں ڈالا، ایک لمبا سانس اندر کھینچا اور دروازہ دھکیل دیا۔

دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا، سامنے جہازی سائز بیڈ پر علوینہ بیٹھے بیٹھے سو رہی تھی۔ قدم قدم چلتا وہ بیڈ کے قدموں والی جانب کھڑا ہوگیا۔ دو منٹ بعد ایک تیس پینتیس سالہ خوبصورت سی عورت کمرے میں داخل ہوئی۔

"آپ نے بلایا سرکار؟"

وہ گلفام سے کچھ فاصلے پر ٹک گئی۔

"ہاں۔۔" گلفام جو علوینہ کو دیکھنے میں مگن تھا بے دھیانی سے بولا۔

"وینا بائی کو یہاں کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔"

وہ عورت مسکرا دی۔

"سرکار ہمیں تو کبھی نہیں بائی کہتے۔"

"یہ حق تو صرف وینا بائی کا ہے۔ کوئی مسئلہ نہ ہو، رکھی۔" اس کا لہجہ تنبیہانہ ہونے کے ساتھ ساتھ التجائیہ بھی تھا۔

"اگر اتنی فکر ہے تو مت جھونکو اس کو اس آگ میں۔"

"مجبور ہوں، اس کے واسطے کچھ نہیں کرسکتا۔ اس کی تکلیف مکمل طور پر رفع نہیں کرسکتا مگر کم کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ تم بھی میرا ساتھ دینا۔" اب شاید وہ رکھی نامی عورت سے یقین دہانی چاہ رہا تھا کہ وہ علوینہ کا خیال رکھے گی۔

"بے فکر ہو جائیں صاحب۔ اب یہ میری ذمہ داری ہے۔"

"ہم تمہارا احسان مند ہوگا۔" وہ سر جھکا گیا تھا۔ جلدی سے پلٹ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا مگر رکھی کی زیرک نظریں اس کے آنسو دیکھ چکی تھیں۔

صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتیWhere stories live. Discover now