لاہور اور اوکاڑہ کے درمیان موجود وسیع حویلی جسے لوگ حسیناؤں کا کوٹھہ یا طوائفوں کا اڈا کہتے تھے، پوری شان و شوکت سے سجی ہوئی تھی۔ تمام حویلی کو باہر سے سفید بتیوں سے سجایا گیا تھا۔ پورچ سے لیکر مرکزی ہال تک گلاب کی پتیاں بچھا کر راستہ بنایا گیا تھا۔ راستے کے دونوں جانب میں روشنیاں بھی لگائی گئیں تھیں۔ حویلی ویسے بھی سجی دھجی رہتی تھی مگر آج رات کی خاص تیاری دوبئی اور قطر سے آئے شہزادوں کے لیے تھی۔ جو حویلی میں وینا بائی کا رقص دیکھنے کی غرض سے آرہے تھے۔
حویلی میں آکر چمکتی ہوئی چھ لینڈ کروزرز Land cruisers رکیں۔ ان کے درمیان ایک سفید رنگ کی Limousine تھی جس میں ایک قطری شہزادہ اور دو دوبئی کے شہزادے تھے۔
تینوں نے اپنا مخصوص لباس زیب تن کررکھا تھا۔ کوٹھے کی لڑکیاں رنگ برنگے لباسوں میں ملبوس ہاتھوں میں پھول لیے ان کے استقبال کے لیے دو رویہ کھڑی تھیں۔ گارڈز نے ان کے لیے دروازے کھولے۔ وہ تینوں نفوس بڑی شان سے سیدھے کھڑے ہوگئے۔ گلفام آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرنے لگا۔ گارڈز کی بھاری نفری میں انہوں نے قدم آگے بڑھا دیے۔ لڑکیاں ان پر پھول نچھاور کرنے لگیں۔ گولیاں چلنے کی آوازیں بھی آئیں۔ ساتھ ساتھ فضا میں پٹاخے بھی پھوڑے گئے۔ میڈیا کی وہاں پر کوریج نہیں تھی۔ یہ محفل انہوں نے بہت مخلوط رکھوائی تھی۔
اس شور شرابے سے دور حویلی کے عقب میں بنے کمروں میں سے ایک بڑے سے کمرے میں علوینہ موجود تھی۔ اس کے اردگرد پندرہ لڑکیاں بھی موجود تھیں جو اسے آج کی محفل کے لیے تیار کررہی تھیں۔
آج اس کا دل ضرورت سے زیادہ بوجھل تھا۔ پچھلے تین ماہ سے بھی وہ ادھر خوشی سے نہیں رہ رہی تھی مگر آج اس کو یوں لگ رہا تھا گویا ابھی اس کا سانس بند ہوجائے گا۔
"آپ بہت خوش قسمت ہو وینا بائی۔" ایک لڑکی جو اس کے پاؤں کے ناخنوں پر نیل پالش لگا رہی تھی وہ بولی۔
علوینہ نے سر اٹھا کر بھی اس کو نہ دیکھا۔ وہ اکثر ایسی باتیں سنتی تھی۔ لڑکیوں کو لگتا تھا اس کے رقص پر زیادہ پیسے نچھاور کیے جاتے ہیں اور یہ بات اس کی خوش قسمتی کی ضامن ہے۔
وہ نہیں جانتی تھیں کہ اپنی اس نمائش پر اس کا دل کس قدر کٹتا تھا کون کون سے گھاؤ تھے جو اس کی روح پر رقم ہوتے تھے۔
وہ ان زخموں کو بھی چاہ کر نہیں بھول پاتی تھی جو اس کو رقص سے انکار کرنے پر حاصل ہوئے تھے۔ تین دن تک وہ بے ہوش رہی تھی اور ہوش میں آنے کے دو ہفتوں بعد بھی اس کا پور پور دکھتا تھا۔
موت کو وہ دو دفعہ بہت قریب سے دیکھ چکی تھی۔ اب اس میں اتنی ہمت بھی نہ رہی تھی کہ دوبارہ موت کو گلے لگانے کی کوشش کرتی۔ اس لیے چپ چاپ اس نے رقص سیکھ لیا تھا اور پھر اس کو محفلوں کا حصہ بنا دیا گیا۔ مگر ایک شرط اس نے بھی رکھی تھی۔ رکھی کی لاکھ منتیں کرنے کے بعد اس نے وہ شرط عاہن تک پہنچائی تھی اور علوینہ کو حیرت کا جھٹکا تب لگا جب اس کو بتایا گیا کہ عاہن نے بغیر کسی پس و پیش کے وہ شرط مان لی ہے۔ اس کی شرط تھی کہ وہ رقص صرف اس صورت میں کرے گی اگر اس کا چہرہ نہ دکھایا جائے اور وہ صرف ان محفلوں کا حصہ بنے گی جو حویلی میں منعقد ہوں گی۔ وہ کسی دوسری جگہ رقص کے لیے نہیں جائے گی۔
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...