سرمئی بادلوں کے پیچھے سے سورج کی سنہری کرنیں قطرہ قطرہ افق پر نمودار ہورہی تھیں۔ حسیناؤں کا کوٹھہ سنسان پڑا تھا۔ عقبی لان میں ایک پنجرے کے اندر سبز اور نیلے رنگ کے طوطوں کی جوڑی جھولا جھول رہی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ اپنی گول آنکھیں پٹپٹا کر اپنے سامنے جلنے والے ایک موٹے کپڑے کو دیکھ رہی تھی۔ کپڑے کو جو حصے ابھی سلامت تھے ان پر خون کے واضح دھبے نظر آرہے تھے۔ یہ وہ چادر تھی جس میں لپیٹ کر آفندی کو حویلی سے لے جایا گیا تھا۔
ایک پلر کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھکا ماندہ سا گلفام بھی کپڑے سے اٹھنے والے شعلوں کو تک رہا تھا۔ جب کپڑا پوری طرح جل گیا اس نے آگے بڑھ کر راکھ سمیٹی اور قریب ہی کوڑادان میں پھینک آیا۔
لان کے ہی ایک سرے میں لگے نل پر جا کر اس نے ہاتھ دھوئے۔ ہاتھ دھونے کے بعد وہ متوازن قدم اٹھاتا پچھلے دروازے سے ہی حویلی کے اندر داخل ہوگیا۔
اس نے ہال میں لگے گھڑیال پر وقت دیکھا جو آٹھ بجا رہا تھا۔ بڑے ہال سے نکل کر وہ دائیں جانب بنی راہداری میں داخل ہوا۔ راہداری کے آخر پر موجود کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھٹکھٹا کر وہ باہر کھڑا ہوگیا۔
"اندر آجاؤ۔" اس کو عاہن کی مدہم آواز سنائی دی۔
دروازہ اندر کو دھکیل کر وہ کمرے میں داخل ہوگیا۔
اس کی پہلی نظر بستر پر لیٹی علوینہ پر پڑی۔ جو کل رات والے لباس میں ہی تھی۔ چہرہ بھی میک اپ اور جیولری سے ہنوز لدا ہوا تھا۔ جو دائیں طرف کو ڈھلکا ہوا تھا۔
اس نے تھوڑا نظر گھما کر عاہن کو دیکھا۔ اسے وہ بہت تھکا۔۔ ہارا ہوا معلوم ہوا۔ عاہن بیڈ کے ایک جانب کرسی رکھ کر اس پر برا جمان تھا اور اس کی نظریں علوینہ کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ وہ کل رات جب سے آفندی کی لاش کو سڑک پر چھوڑ کر آیا تھا تب سے علوینہ کے پاس بیٹھا تھا جو نیند کی گولیوں کی وجہ سے ابھی تک نہیں اٹھی تھی۔
"صاحب آپ بھی آرام کرلیں۔" گلفام نے مدہم آواز میں کہا۔ وہ اس کمرے کے سکوت میں خلل نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔
"ہوں۔۔"
"کھانا لگاؤں آپ کے لیے؟" اس نے اگلا سوال کیا تھا۔
"علوینہ کو ہوش کب آئے گا؟" اس کے سوال کے بدلے ایک بالکل ہی الگ سوال آیا تھا۔
"نو دس بجے تک اٹھ جائیں گی۔" گلفام نے اندازاً بتایا۔ عاہن کی نظریں ابھی بھی علوینہ پر جمی تھیں۔ گلفام نے محسوس کیا وہ بنا پلکیں جھپکے اسے دیکھتا جا رہا تھا۔ پلکیں نہ جھپکنے کے باعث اس کی آنکھوں سے یقیناً چبھن کے باعث پانی بہہ رہا تھا۔
"اس کی جیولری کپڑے۔" اس نے پھر کہا، اس کی بات کا مفہوم گلفام کو سمجھ نہ آیا۔
"کیا مطلب سرکار؟"
"اس کو الجھن ہورہی ہوگی جیولری سے۔" اس نے عام سے لہجے میں کہنا چاہا تھا مگر اس کی آواز سے صاف پتہ لگ رہا تھا کہ علوینہ سے زیادہ اسے کوفت ہورہی تھی اس کے بھاری لباس اور زیور سے۔
YOU ARE READING
صحرا میں بھٹکی وہ آب آب کرتی
General Fictionیہ کہانی ہے: جنون بھرے عشق کی۔۔۔ طاقت کے نشے کی۔۔۔ بےبسی کی ذلت کی۔۔۔ یہ کہانی ہے صحیح اور غلط راستے کے انتخاب کی کشمکش کی۔۔۔ یہ کہانی ہے غمِ دوراں کے سامنے کبھی پہاڑ کی طرح ڈٹ جانے والوں کی اور کبھی گھٹنے ٹیک دینے والوں کی۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ...