part 4/epi:2

9K 104 67
                                    

وہ تمام رعنایاں سمیٹے ہال میں داخل ہو رہی تھی گرے رنگ کے گاؤن میں سلور یعنی چاندی کے تاروں کے کام سے مزین تھا سالیٹیر ڈائمنڈ اور پلاٹینیم کے سیٹ، بنیدیا، چوڑیوں اور مہندی بھرے ہاتھ سمیت سہج سہج کر قدم اٹھاتی اسٹیج پر آ رہی تھی ریڈ لپسٹک اور بیوٹیشن کی مہارت سے حورعین اور نکھر گئی تھی
جیسے جیسے وہ قدم بڑھاتی شانزل کی دھڑکن بھی بے ربط ہوتی جا رہی تھی شانزل بے اختیار اپنے بے قابو ہوتے دل پر ہاتھ رکھا
شانزل نے ایک ہاتھ حورعین کے سامنے کیا
حورعین نے ذرا کی ذرا نظر اٹھا کر اسے دیکھا پھر ایک مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ تھام لیا اور شانزل کو لگا کسی نے اس کی ہتھیلی پر ہفتے اقلیم کی دولت رکھ دی ہو اسکی خوشی سے چمکتی آنکھیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔

"السلام علیکم"
شانزل نے اسٹیج پر بیٹھنے کے بعد سلام کیا

حورعین نے ایک نظر اسے دیکھا وہ آج بھی ویسا ہی تھا بے انتہا وجیہہ۔ گرے کوٹ پینٹ اور وائٹ ٹکسیڈو شرٹ، اسکی شخصیت جیسی انمول گھوڑی اور نفاست سے سیٹ کیے ہوئے بال اس کی وجاہت میں چار چاند لگا رہے تھے۔
اس کی بھوری آنکھیں آج بھی نمایاں تھی ویسی ہی شیر سی چمکتی آنکھیں جس نے نہ صرف حورین کی دل کی دنیا جیتی تھی بلکہ اس پر بڑے وثوق کے ساتھ حکمرانی بھی کر رہا تھا حورین نے صرف سر کے اشارے سے جواب دیا اور گردن جھکالی

شانزل قدرے اس کی طرف جھکا اور سرگوشی کی

"تعریف فی الحال نہیں کروں گا کیوں کہ یہ سب معاملات میں نے بعد کے لئے رکھے ہیں جس پر میں تفصیلی گفتگو کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں مگر حجلہ عروسی میں "
حورین نے سوچا یہ شخص بالکل نہیں بدلنے والا اتنی بڑی بڑی بات کرنے کے بعد ایسے ریئکٹ کرتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو حالانکہ حورعین کے رخسار فوراً سرخ ہوئے تھے۔

وہیں شاہ زر جہانزیب بھی کسی سے کم تھوڑی تھا وہ نیوی بلو کلر کے کوٹ پینٹ، ٹکسیڈو وائٹ شرٹ اور ہم رنگ آنکھوں سمیت چھایا ہوا تھا ہر نظر پلٹ کر اسے ضرور دیکھتی حیا بھی رائل بلو ساڑھی میں بھری بھری چوڑیوں اور مہندی میں دمک رہی تھی اگر کچھ خاص تھا تو اس کے چہرے کی چمک۔

آج کا فنکشن بہت پر سکون تھا پتا نہیں کون سے رشتہ دار جو حورعین کو یاد بھی نہیں تھے وہ آ کر اسے دعائیں دے رہے تھے اشعر ہانیہ حدید اور حیا کی وجہ سے ماحول بہت خوشگوار تھا۔

شانزل کے خالہ خالو کی خوشی دیکھنے والی تھی حیا نے اس منظر کو قید کرنا چاہا سب اتنے خوش تھے جیسے کوئی ابر رحمت بن کر برس رہا ہو

تب ہی رخصتی کا شور اٹھا اور حورعین شاہ زر کے گلے لگ کر جو روئی کے ہر آنکھ اشکبار ہو گئی وہ دس سال کی تھی جب وہ بھیانک رات آئی اس کے بعد اس کا سب کچھ شاہ زر ہی تھا اس نے اس کے انتظار میں قیامت سے گیارہ سال گزارے تھے شاہ زر نے بھی اپنا وعدہ نبھاتے ہوئے اس کے پاس آیا تھا وہ حقیقتاً حور کو اپنی بیٹی مانتا تھا

Nazool e mohabbat (Complete)✅Where stories live. Discover now