part 4 / epi:11

8.5K 141 149
                                    

ایک لمحے غور سے حیا کی آنکھ میں دیکھا
جہاں ضد ہلکورے لے رہی تھی
حیات سکندر نے ایک گہری سانس خارج کی اور پلٹ کر چلا گیا۔ حیا کے لیے یہ تعجب کی بات تھی کہ وہ بغیر کسی حجت کے چلا گیا۔
وہ وہیں دہلیز پر بیٹھ گئی۔ حیات سکندر سے کچھ بعید نہ تھی کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ جب شانزل کی مرسیڈیز اندر آئی تب حیا کی جان میں جان آئی۔
"اوہ بھائی خدا کا شکر ہے آپ آ گئے۔"
"کیا ہوا؟ کہاں ہے حیات سکندر؟ تم۔۔۔ تم باہر کیوں بیٹھی ہو؟" بادل آتے ہوئے شانزل نے جتنے سوال منہ میں آئے پوچھ لیے۔
سب ٹھیک ہے حور اندر ہے۔" آگے کچھ بھی سنے بغیر شانزل اندر چلا گیا۔ کمرے سے حور کی آواز آرہی تھی ہیں ابھی اندر چلی آئی۔ پیچھے سے شاہ زر حواس باختہ سا اندر داخل ہوا۔ شانزل نے آگے بڑھ کر کمرے کا دروازہ کھولا۔ حورعین تو چونک گئی۔
"آپ کب آئے؟! ایک منٹ تم نے مجھے اندر لاک کیوں کیا؟"
"وہ۔۔۔ وہ۔۔۔" حیا کچھ جواب دیتی اس سے پہلے ہی زمان عبیر بول اٹھے۔
یہ ہو کیا رہا ہے سب ان کی موجودگی کو فراموش کر چکے تھے۔
"خیر جو بھی ہو رہا ہو، ایک بات میری کان کھول کر سن لو اشعر دوبارہ میرے گھر اس کے تعلق سے" انہوں نے انگلی سے حیا کی طرف اشارہ کیا۔ "کوئی بھی دھمکی دینے کی کوشش مت کرنا آئی سمجھ اب اس کی شادی ہو چکی ہے۔ اب یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔" حیا کے چہرے پر سایہ لہرایا جسے صرف شاہ زر نے محسوس کیا۔ اشعر استہزائیہ ہنسا۔
"حیا کی ذمہ داری لینے کی آپ کی اوقات ہے کیا؟" اس نے بہت سخت بات کہہ دی تھی۔ زمان عبیر کے چہرہ کا رنگ سرخ ہو گیا۔ وہ اسے تھپڑ مارنے کے لیے آگے بڑھے ہی تھے جب حیا درمیان میں آگئی۔
"بس کیجیے تماشا لگانے سے کیا حاصل ہو گا لیکن آپ کا بہت سخت قیمتی وقت ضائع ہوچکا ہے۔"
"اس سے پہلے مجھے تمہیں تھپڑ لگانا چاہیے مجھے تمہاری وجہ سے کل تک جو لڑکا میرے سامنے آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا آج سر اٹھائے کھڑا ہے۔ صحیح کہتی ہے نائلہ بہت ڈھیٹ اور کپٹی ہو تم۔"
"اب آپ حد سے گزر رہے ہیں۔" شانزل کی برداشت یہیں تک تھی۔
"ریلیکس بھائی یہ سب تو مجھے پتا ہے کوئی نئی بات کیجئے۔" پہلا فقرہ شانزل سے کہہ کر باقی کا جملہ زمان عبیر سے کہا۔
"تم چپ کرو۔" اشعر نے حیا کو ڈپٹا۔
"آپ برائے مہربانی یہاں سے تشریف لے جائیں۔" وہ وہاں سے تن فن کرتے چلے گئے۔
"تم یہ گن لے کر کیوں کھڑی ہو؟" حورعین نے پوچھا۔
"حیات سکندر کیوں آیا تھا؟" شانزل نے سوال کیا۔
"واٹ حیات سکندر آیا تھا!"
"تم نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔" اشعر کا تو رونا ہی الگ تھا۔
"تمہارے ابو کیوں آئے تھے؟" سب ایک ساتھ بول رہے تھے۔ گھر کم اور مچھلی بازار زیادہ لگ رہا تھا۔ شاہ زر کا ضبط جواب دے گیا
"چپ!!" سب ایکدم چپ ہو گئے۔
"بیٹھو سب" سب ایک ایک کرکے صوفے پر بیٹھ گئے۔
"حیات سکندر کا کیا معاملہ ہے؟" شاہ زر نے پوچھا تو اشعر نے الف سے ے تک ساری کہانی سنا دی۔ باقی کہانی حیا نے پوری کی۔
تم۔۔۔ تم تھپڑ کھاؤ گئی مجھ سے۔ تم نے اتنا بڑا قدم اٹھایا اگر تم بھول گئی ہو تو یاد دلادوں پرسوں رات کو عزیر حیات کا چہرہ تیزاب سے جھلس گیا تھا تمہیں اندازہ ہے وہ کیا کر سکتا تھا اف خدا کتنی احمق ہو تم!" حورعین تو حیا پر برس پڑی۔
"لیکن اگر حیات سکندر نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا تو آیا ہی کیوں تھا؟" شانزل نے ذہن میں کلبلاتے سوال کو زبان دی۔
"معافی مانگنے" شاہ زر کی بات سب کو ساکت کر گئی۔ "کل صبح حیات سکندر آفس آیا تھا مجھ سے بھی معافی مانگی کہہ رہا تھا اظہر حیات کی حالت اس کے گناہوں کی وجہ سے ایسی ہوئی ہے میں نے صرف خاموشی سے اس کی بات سنی حقیقت میں مجھے اس پر بھروسہ نہیں ہے۔"
"ٹھیک ہے میں سکیورٹی بڑھوا دیتا ہوں" شانزل میں پر سوچ انداز میں کہا۔
"ہانیہ سامان باندھو ہم ابھی نکل رہے ہیں۔" اشعر کہہ کر اٹھا اور اپنے کمرے میں جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اور حیا اس کے پیچھے۔
"اوئے تمہیں بیٹھے بٹھائے کون سے کیڑے نے کاٹ لیا رکو یار۔" وہ لوگ آدھی سیڑھیوں پر کھڑے تھے۔
"تم نے مجھے تھپڑ مارا ہے حیا" اشعر نے جیسے یاد دلایا۔
"تم تو بچپن سے ہی مجھ سے تھپڑ کھاتے آئے ہو۔"
"میں بحث نہیں کروں گا۔ میں جا رہا ہوں یا اسے روکنے کے لیے آگے بڑھی جب اس کا پیر پھسلا۔ بے اختیار اس کے منہ سے چیخ نکلی۔ حورعین دہل کر آگے بڑھی۔ شاہ زر کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ وہ تو اشعار نے برق رفتاری سے اسے تھام لیا ورنہ وہ ایک بار پھر بری طرح گرتی۔ حورعین نے دل تھام لیا۔ حیا بھی ایک لمحے کے لئے ڈر گئی۔
"وہیں سے ایک تھپڑ لگاؤں اس کے اشعار اتنی بڑی ہو گئی ہے لیکن سیڑھی چڑھنے کی تمیز نہیں ہے اسے۔" حورعین بھنا گئی۔ حیا وہی سیڑھیوں پہ پلاٹی مار کر بیٹھ گئی۔
"سب سے پہلے ڈیسائیڈ کرلو کون کس کو کتنے تھپڑ مارے گا"
"اشعر تمہیں عقل سے کام لینا چاہیے یہ کونسا طریقہ ہے آرام سے بیٹھ کر انسانوں کی طرح بات کرو۔" شانزل نے اشعر کو گھرکا وہ شرمندہ سا ہو گیا۔
"اس کے پاس عقل ہوگی تو عقل سے کام لےگا ناں!" حیا کی بات پر اشعر کی ساری شرمندگی اڑن چھو ہو گئی۔
تم تو چپ ہی بیٹھو
"کیوں چپ بیٹھوں؟ تم زمان ہاؤس کیوں گئے تھے ہاں؟ کیوں وہاں پر میرا تماشا لگانے گئے تھے؟!" اشعر بھی وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔
میں وہاں پر تمہارا تماشا لگانے نہیں گیا تھا انہیں آئینہ دکھانا از حد ضروری تھا تاکہ وہ اسے دوبارہ کوئی ایسی حرکت نہ ہو حالانکہ یہ کام تمہارا تھا لیکن تم حیا ہو بالکل غیر متوقع قسم سے جب تمہاری حالت کی وجہ معلوم ہوئی تو دل چاہا کہ دو تھپڑ تمہیں لگاؤں یہ تمہارا کام تھا کہ عاطف زمان کا حشر حشر کر دو مگر نہیں تم تو دیوداس کی لیڈیز ورژن بن کر بیٹھ گئیں۔ اوپر سے تم جب ہوش میں آئی تو تم نے شاہ سر بھائی کو فون کیا اور کو فون کیا مگر مجھے نہیں کیا میں پاگلوں کی طرح تمہارے گھر کے چکر لگاتا رہا مگر تم نے نوکروں سے کہہ دیا کہ کوئی بھی آئے تو کہہ دینا کہ حیا گھر پر نہیں ہے کیوں تم لاوارث نہیں ہو حیا کم ازکم جب تک میں ہوں تب تک تو نہیں ہو ہم دونوں بچپن سے ساتھ ہی بچپن سے ایک دوسرے کا ہر راز جانتے ہیں۔ میں نے تم سے کبھی کچھ نہیں چھپایا تو تم نے مجھ سے باتیں کیوں چھپائیں۔ تم بس ایک بار مجھے آواز دیتی کیا میں نہیں آتا یہ مسئلہ بہت بہتر طریقے سے عمل کے ساتھ حل ہوسکتا تھا۔ مگر تم انتہا کی جذباتی ہو تم مجھ سے کہہ کر تو دیکھتیں تم مجھے صرف غصہ نکالنے کے لیے بلاتی ہو کیوں؟ میں تمہیں بیوقوف نظر آتا ہوں؟" عشر کی بات پر حیا نے مسکراہٹ روک کر پورے شدومد سے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ جو اتنی جذباتی تقریر کر رہا تھا۔ جھنجلا گیا۔
"دفع ہو جاؤ حیا کی بچی لعنت ہو مجھ پر جو ہر دفعہ مار کھانے کے بعد تمہارے پاس دوبارہ آ جاتا ہوں۔"
ہاں تو کیوں آئے ہو
نہیں آؤں گا اب
اور اگر آئے تو حیا نے جیسے چلینج کیا۔
"تو مجھ سے بڑا بے وقوف اس دنیا میں کوئی نہ ہوگا۔ چاہے تم کتنی ہی تکلیف میں کیوں نہ ہو۔" وہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"جاؤ جاؤ۔" حیا نے بھی کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی مگر کراہ کر دوبارہ بیٹھ گئی۔ حشر نے پلٹ کر دیکھا کہ وہ پیر پکڑے بیٹھی تھی۔ وہ فوراً اس کے پاس آیا۔
"کیا ہوا ہے؟ پیر دکھاؤ!" پنجے میں تشویش تھی۔ حیا سر اٹھا کر مسکرائی اور ہانگ لگائی۔
"ہانیہ ذرا دنیا کے سب سے بڑے بیوقوف کا نام تو بتاؤ۔" سب ہی ہنس پڑے۔
"اشعر احمد" ہانیہ نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا۔ اشعر نے حیا کی شرارت سمجھ کر پہلے تو اسے گھورا مگر پھر خود بھی ہنسنے لگا۔
"تف ہے تم پر اشعر احمد" خود کو ملامت کی۔
"چلو بھائی زوروں کی بھوک لگی ہے میں کھانا آرڈر کرتا ہوں۔" شانزل کہہ کر کھانا آرڈر کرنے لگا۔

Nazool e mohabbat (Complete)✅Where stories live. Discover now