PART 4/epi:7

8.6K 121 157
                                    

فریدہ نے اسے وہ سب کچھ بتا دیا جو جو جانتی تھی یعنی

"جی۔۔۔۔۔ ساڑھے تین مہینے پہلے سے۔۔۔۔۔"

" مجھے شروع سے سب بتائیے بے فکر ہوکر "

"وہ۔۔۔۔ جی۔۔۔۔۔آپ کے جانے کے بعد مطلب دوسرے دن رات کے وقت میں نے باجی کو دیکھا تھا وہ شاید چھت کی سیڑھیوں سے گری تھی،،، کیسے گری مجھے نہیں پتا پھر۔۔۔۔۔"
وہ سب کچھ بتاتی چلی گئی
ہسپتال۔۔۔۔۔ حیا کا خون سے لت پت وجود ہونا۔۔۔۔۔۔ہوش میں نہ آنا۔۔۔۔ دوسرے شہر۔۔۔۔۔ڈیڑھ مہینے بعد ہوش میں آنا ۔۔۔۔۔۔ساڑھے تین مہینے سے دورے پڑنا۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر کو بلانے سے منع کرنا۔۔۔۔۔۔اور عذیر حیات کی آمد۔۔۔۔۔

"ٹھیک ہے ،،،،،اب آپ  جا سکتی ہیں "
حورعین کی آواز لرز رہی تھی

" آپ نے جو کچھ حیا کے لیے کیا ہے اس کا احسان میں زندگی بھر نہیں چکا سکتی"

بہت ضبط کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو روکا مگر آواز پھر بھی نم تھی
فریدہ سمجھ کر چلی گئی

حورعین  کے لیے یہ حقیقت ہی دہلادینے والی تھی اس کا دل کرب سے پھٹا جا رہا تھا نہ جانے وہ کونسی سچائی تھی  جو صرف  شاہ زر کو پتہ تھی اس نے شاہ زر سے کچھ نہیں پوچھا اب ہمت نہیں بچی تھی اور کچھ سننے کی ،شاہ زر کے پاس کچھ تھا ہی کہاں کہنے کے لئے ،،،،،،، حورعین لڑکھڑاتے قدموں سے کمرے میں آئی اسے لگا اس سے بھیانک کچھ ہو ہی نہیں سکتا مگر آج رات ایک قیامت اسکی منتظر تھی آزمائشوں کا سلسلہ جاری تھا۔
                            ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح حیا ک آنکھ کھلی تو بدن درد سے ٹوٹ رہا تھا ہمیشہ کی طرح دورے کے بعد اس کی حالت قابل رحم تھی اس نے بہت مشکل سے آنکھیں کھول کر دیکھا تو اس کے بازو میں ہانیہ سوئی ہوئی تھی اور اشعر سوفے  پر بیٹھا اپنے موبائل میں مصروف تھا

"ہاش چلو اٹھو یار اس سے پہلے میں بھوک سے کوچ کر جاؤں اٹھو اور اسے اٹھاؤ کمب کرن کی نانی  اتنا سوتی ہے میں ناشتہ لے کر آتا ہوں"
اشعر کے واویلے پر ہانیہ کی آنکھ کھلی تو اسے گھورنے لگی

" اشعر احمد میں تمہیں بتا رہی ہوں مجھے ان القابات سے مت نوازا کرو"

" بعد میں بحث کریں گے "
اشعر کہہ کر چلا گیا حقیقتا  بھوکا تھا ورنہ اشعر  بحث چھوڑ دے یہ ناممکن بات تھی

حیا نے ہانیہ کو دیکھا  اس کا بھرا بھرا جسم  اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ اس کے اندر ایک ننھی سی جان پل رہی ہے دونوں اب بھی ویسے ہی تھے

"چلیں آپی اٹھیں جلدی  اس نے رونا شروع کر دینا ہے"
کہتے ہوئے اسے اٹھا کر سہارے سے واش روم لے کر جانے لگی درد کی لہریں حیا کے جسم میں اٹھ رہی تھی وہ واش روم سے نکلی تو ہانیہ اور اشعر پھر لڑ رہے تھے

" آجائیں آپی ، اس نے مجھے اتنا حیران کیا ہے، اب مل کر ہم اسے بھی حیران کریں گے ، اشعر احمد  اپنی خیر منائیں"

Nazool e mohabbat (Complete)✅Kde žijí příběhy. Začni objevovat