خواب بھیانک تھا.....آوازیں تکلیف دہ.......
"امی!! امی!!امی!!" وہ چیختے ہوئے ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔ سر سے پیر تک پسینے سے شرابور، لرزتا کانپتا وجود.... اور بھاری تنفس...
" یہ روز روز کا کیا تماشا لگا رکھا ہے تم نے !" اگلے ہی لمحے وہ اس کے سر پر دھاڑا تھا۔ کچھ خواب کی وحشت تھی اور کچھ فارس کی دہشت...... وہ سہم کر رہ گئی۔
جانے وہ اب کیا کہہ رہا تھا۔ کس بات پر چلا رہا تھا۔اسے پتہ نہیں تها۔ یاد تھا تو بس یہی کہ بازو سے پکڑ کر اس نے اسے کمرے سے نکال باہر کیا تھا۔ ہاں یاد تھی تو دروازہ بند ہونے کی وہ آواز جو کافی دیر تک اس کے کانوں میں گونجتی رہی تھی۔
وہ ابھی تک اپنے خواب کے اثر میں تھی۔ لرز رہی تھی۔ کپکپا رہی تھی۔ وحشت و بےسکونی کی دلدل میں اترتی جا رہی تھی۔
وہ رات!!! وہ اس کی زندگی سے نکل کیوں نہیں جاتی؟!
ننگے پیر ، ٹھنڈے فرش پر بیٹھتے ہوئے اس نے اپنے گرد بازو باندھ لیے۔ سر گھٹنوں پر رکھ لیا۔
" جنت نہیں!! جنت پلیز!!! جنت میرا بچہ!!"
" مجھے بخش دو خدا کے لیے!!" اپنے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ اس کی ساری برداشت اسی آواز پر ختم ہو جاتی تھی۔ یہی چیخ....یہی پکار ...اس کی دھجیاں بکھیر دیتی تھی۔ جی چاہتا تھا وہ خود کو نوچ کھسوٹ ڈالے، زخمی اور لہولہان کر لے۔
" ساری زندگی تم نے امی کو دکھ دئیے ہیں.... ساری زندگی تم ان کے لیے مصیبت بنی رہی ہو جنت، اور اب یہ ..........!!" آوازوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
"امی!! امی!!! امی دروازہ کھولیں !!!"
وہ حواس باختہ ہو کر دروازہ بجانے لگی۔
" فارس دروازہ کھولو پلیز!!!"
راہداری کا ملگجا اندھیرا روشنی میں بدل گیا تھا۔ مارچ کی وہ شب اپنی تمام تاریکیوں کے ساتھ اس کے دماغ میں حلول کر گئی تھی۔
"پلیز دروازہ کھولو فارس!!! خدا کے لیے!!!" وہ گڑگڑائی۔
" بی بی جی ماہین بی بی کی طبیعت خراب ہو گئی ہے!" گاڑی کا ہارن کہیں دور سے بجا تھا۔
" فارس!" اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ وہ دروازے پر زور زور سے ہاتھ مارنے لگی۔مگر دروازہ نہیں کھلا تھا۔ اس رات بھی نہیں کھلا تھا۔
"ماہین .....برھان واصف کی دوسری بیوی!!!"
وہ دروازے سے گھسٹ کر نیچے بیٹھ گئی۔ اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔ اپنی چیخوں کا گلا بس وہ ایسے ہی گھونٹ سکتی تھی۔
تمام مناظر فلم کی طرح دماغ کی سکرین پر چلنے لگے۔وہ ہانپتی ، کانپتی ، شدت سے روتی سٹڈی روم میں بند ہو گئی۔
ٹھنڈے فرش پر ٹانگوں کو سینے سے لگائے وہ ساری رات ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی رہی تهی۔★★★★★★★★★★★
اور بند دروازہ صبح کے سات بجے کھلا تھا۔
ہمیشہ کی طرح نک سک سے تیار وہ آفس ٹیبل کی جانب بڑھا تھا۔ جنت دروازے کی بائیں طرف فرش پر گھٹنے سینے سے لگائے بیٹھی تھی۔سر اٹھائے سرخ و متورم آنکھوں سے اب اسے دیکھنے لگی تھی۔
"یہ کاغزی رشتہ ہے،کاغز تک محدود رہے گا!"
اطراف سے یکسر بےنیازی برتتے ہوئے اس نے لیپ ٹاپ کیس میں لیپ ٹاپ رکھا، اپنی فائل اٹھائی۔کچھ ضروری ڈاکومنٹس اور پرنٹ آوٹس کا سرسری سے جائزہ لیا اور پھر اسے مکمل طور پر نظرانداز کرتا سٹڈی سے چلا گیا۔
" یہ احساس کتنا اذیت ناک ہوتا ہے کہ آپ موجود ہوں اور کوئی آپ کو "عدم" کر دے! آپ ماوارائی ہو جائیں...نظر ہی نہ آئیں!!!" آنسو بہت پہلے خشک ہو چکے تھے۔ وہ اب رو نہیں رہی تھی۔عادتاً اپنے داہنے ہاتھ کی کلائی بائیں ہاتھ میں مضبوطی سے تھامے پتھر ہوئی بیٹھی تھی۔
"ٹوٹا ہوا انسان یا تو سانس کی طرح ساکن ہو جاتا ہے یا پھر سمندری لہروں کی طرح سرکش!"
کس قدر کوشش سے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔الجھے بکھرے بالوں کو سمیٹ کر سٹڈی سے باہر آ گئی۔اس کا رخ بیڈ روم کی طرف تھا۔کچھ ہی دیر میں وہ واش بیسن پر جھکی ہوئی تھی۔ پھر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے بال بنا رہی تھی۔فریش ہو کر نیچے آئی تو ڈائننگ ہال میں مسز شیرازی اور فارس موجود تھے۔
اس کی روئی روئی سی آنکھیں سوجی ہوئی اور متورم لگ رہی تھیں مگر چہرے پر بشاشت تھی...لبوں پر مسکراہٹ!
ایک ایکٹنگ فارس کر رہا تھا۔۔۔۔ایک وہ کر رہی تھی۔۔۔۔دونوں کمال کے اداکار تھے۔۔۔۔
" وہ تمہیں عدم کر رہا ہے... اور تم اسے ایسا کرنے دے رہی ہو!!"
اس نے فارس کو دیکھا۔۔۔ اس کا چہرہ ہر طرح کے تاثر سے عاری تھا۔۔۔
کوئی انسان اتنا بےحس، اتنا بےرحم کیسے ہو سکتا ہے؟!
" جب کوئی اپنے لیے خود بےرحم اور سفاک ہو جائے تو اسے دوسروں کی سفاکیت پر سوال نہیں اٹھانا چاہیئے!" وہی آواز......
حلق میں ابھرتے آنسوؤں کے پھندے کو نیچے اتارتے ہوئے وہ پلیٹ پر جھک گئی۔ چھری کانٹے کی مدد سے چیز آملیٹ کھاتے ہوئے اس انگلیاں کپکپا رہی تھیں۔ وہ فارس کو دیکھنا نہیں چاہتی تھی مگر نگاہیں تھیں کہ بار بار اس کے پرسکون اور مطمئن سے چہرے کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔
وہ اپنے یتیم بھتیجے کو اپنی سرپستی میں لینے کو تیار نہ تھا۔وہ اسے اپنی زندگی میں کوئی مقام دینے کو آمادہ نہ تھا۔ایسے انسان سے محبت تو دور کی بات....رحم کی امید بھی نہیں رکھی جا سکتی تھی..اور وہ یہ توقع کر رہی تھی کہ اسکا دل نرم ہو جائے گا؟! وہ اسے صرف اور صرف برداشت کر رہا تھا، اور جنت اس کی برداشت میں گنجائش دیکھ رہی تھی !؟
"پچھلی بار خالہ آئی تھیں! اس بار کوئی نہیں آئے گا! اس بار تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکے گا! !"
اس نے چائے کے گھونٹ کے ساتھ کئی آنسو اپنے اندر اتار لیے تھے۔
ناشتے کے بعد وہ مسز شیرازی کے ساتھ لان میں آ گئی تھی۔لان چئیر پر ان کے سامنے وہ دهوپ میں بیٹھی تو وہ اسے بغور سے دیکھنے لگیں۔
"تم ساری رات روتی رہی ہو؟" انہوں نے اتنے اچانک سے پوچھا کہ لمحے بھر کے لیے وہ کمزور پڑ گئی۔ آنکھوں کے کنارے نم ہوئے، ہونٹ کپکپا کر رہ گئے، دل چاہا وہ سب کچھ ان کے گوش گزار کر دے مگر۔۔۔
" نہیں اصل میں سر درد کی وجہ سے میں ٹھیک سے سو نہیں پائی! نیند پوری نہ ہو تو میری آنکھیں ایسی ہو جاتی ہیں!"
مسز شیرازی نے اس کے وضاحتی جواب کو خاموشی سے سنا پھر وہ سامنےاملتاس کے ان درختوں کو دیکھنے لگیں جو بیرونی دیواروں پر جھکے ہوئے تھے۔ معمول کے برعکس وہ کچھ خاموش سی تھیں۔
" فارس تمہارے ساتھ کیسا ہے؟!"
چند روز قبل انہوں نے پوچھا تھا۔ آج دوبارہ پوچھ رہی تھیں۔ چند روز قبل آنکھوں میں جھانک کر پوچھا تھا۔ آج آنکھیں چرا کر پوچھ رہی تھیں۔
" بہت اچھا ہے!" ہمیشہ کی طرح اس کی مسکراہٹ آنکھوں تک نہیں پہنچی تھی۔ اس نے ابھی تک فارس کے جارحانہ رویے کی بھنک انہیں نہیں پڑنے دی تھی۔ وہ ہارٹ پیشنٹ تھیں، بیمار رہتی تھیں۔ اسے احساس تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے سامنے فارس بھی کس قدر محتاط ہو جاتا تھا اور کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کرتا تھا جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کا تعلق کس نوعیت کا ہے۔
"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟!" جنت کو تشویش ہوئی تھی۔
انہوں نے اس کی طرف دیکھا۔پھر ہنس دیں.... جانے انہیں ہنسی کس بات پر آئی تھی مگر اس ہنسی میں بھی ایک بےبسی تھی۔
"ہاں میں ٹھیک ہوں!" وہ جنت کے گال پر ہاتھ رکھ کر محبت سے بولیں..."تمہاری طرح میں بهی ٹھیک سے سو نہیں پائی!!"
جنت نم آنکھوں سے انہیں دیکھ کر رہ گئی۔ دونوں کا اپنا ایک درد تھا، اور دونوں ہی ایک دوسرے سے چھپانا چاہ رہی تھیں۔
جنت نے گہرا تنفس کے کر ہیئر مان ہیسے کی کتاب کھول لی تھی۔خالی الزہنی کی کیفیت میں وہ اب مطلوبہ صفحہ تلاش رہی تھی۔
جو انسان اپنے یتیم بھتیجے کے لیے بےرحم ہو وہ اس کے لیے رحمدل کیسے ہو سکتا ہے؟! جو نکاح جیسے مضبوط رشتے کا مذاق بنا دے .. اس انسان سے وہ کسی اچھائی کی امید رکھ بھی کیسے سکتی ہے؟ اس نے سر اٹھا کر مسز شیرازی کو دیکھا، وہ کھوئی کھوئی سی بیٹھی تھیں، نگاہیں دور کہیں بھٹک رہی تھیں۔ چہرہ کسی پوشیدہ درد کی عکاسی کر رہا تھا۔
" تم ایک بار پھر خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ رہی ہو جنت!!! تم ایک بار پھر وہی غلطی دہرا رہی ہو!"
کتاب پر اس کی انگلیوں کی گرفت یکایک مضبوط ہوئی تھی۔
" ٹوٹا ہوا انسان یا تو سانس کی طرح ساکن ہوتا ہے یا پھر سمندری لہروں کی طرح سرکش!!!" نانا اکثر کہا کرتے تھے۔
مگر جو ساکن ہوتا ہے... اسے سرکش ہونے میں دیر بھی نہیں لگتی... یہ بات اب وہ فارس وجدان کو بتانے والی تھی۔
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...