چھٹی قسط :
دھرتی پر خزاں اتری ہوئی تھی۔درختوں کے پتے جھڑ رہے تھے۔سبزہ گہرا خشک لگ رہا تھا۔۔۔ہر شئے رنگ بدل رہی تھی۔ ایک رنگ اسکا بھی تھا۔سفیدی میں گھلتا۔۔۔سیاہی میں بدلتا۔۔۔نفرت سے الجھتا۔۔رشتوں میں بھٹکتا۔۔۔۔ اسکا اپنا رنگ۔۔۔
رشتہ خون کا تھا۔مگر خون سے زیادہ اہم دادا کے لیے "عزت" اور "وقار" تھا۔ دولت اور سٹیٹس تھا۔ شہرت اور نیک نامی تھی۔وہ ہر کام باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کرتے تھے۔ہر فیصلے اور چال میں اپنی مصلحت کو مقدم رکھتے تھے۔
جمیلہ داؤد کے جانے کے تیسرے دن انہوں نے اسکا داخلہ بورڈنگ سکول میں کروا دیا تھا۔معاملات پہلے سے طے تھے، سرانجام اب دیئے جا رہے تھے۔۔
جمیلہ کی جدائی۔۔۔۔پھر اجنبی جگہ پر،اجنبی ماحول میں ایڈجسٹ ہونا اس کے لیے ہرگز آسان نہ تھا۔وہ نفسیاتی طور پر بہت ڈسٹرب ہو گیا تھا۔ پڑھائی میں اسکی کارکردگی صفر ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ اپنے کلاس فیلوز سے بات نہیں کرتا تھا۔اپنے ٹیچرز کو جواب نہیں دیتا تھا۔ کئی بار ہیڈ آفس میں اسکی حاضری ہو چکی تھی۔ کئی بار اس کے گھر رابطہ کیا جا چکا تھا۔ پرنسپل یقینا اعظم شیرازی کے جاننے والے تھے۔ وہ اس کے سامنے ہی کال کرتے، بات کرتے ، مسئلہ بتاتے کچھ سنتے،کچھ سمجھتے اور فون بند کرتے ہی اسے جانے کا اشارہ کر دیتے۔۔۔ اور پھر وہی روٹین۔۔وہی اذیت۔۔۔ وہی گھٹن۔۔۔وہی خوف اور وحشت بھرا احساس ۔۔۔۔۔
وہ سنبھل جائے گا ،یہ سب کا خیال تھا، وہ سنبھل نہیں رہا تھا یہ ایک حقیقت تھی۔۔۔۔۔اور اس حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کوئی نہیں کر رہا تھا۔۔۔
اندر ہی اندر سے گھٹتے مرتے ہوئے اس نے فیصلہ کر لیا وہ شیرازی مینشن اب کبھی نہیں جائے گا۔چھٹیوں میں بھی نہیں۔زندگی ایسی ہے تو پھر ایسی ہی سہی۔۔۔وہ بھی جیسے ضد پر اتر آیا تھا۔
اتوار کی ایک صبح آغا علی آیا تو اس کے ساتھ ڈاکٹر مصطفیٰ بھی تھے۔پورے تین ہفتوں کے بعد وہ انہیں دیکھ رہا تھا۔ معمول کے برعکس اس نے کوئی گرمجوشی نہیں دکھائی تھی۔نہ ہاتھ ملایا،نہ اٹھ کر ان سے گلا لگا۔ ایک فاصلہ قائم رکھے وہ فاصلے پر ہی کھڑا رہا تھا۔
وہ سرسبز لان میں بنچ پر بیٹھ گئے تھے۔ سامنے سکول کی عمارت اور ہرے بھرے درختوں سے گھرے کھیل کے میدان تھے۔بچے کھیلتے کودتے پھر رہے تھے۔
"آپ یہاں کیوں آئے؟" وہی کیے دیئے سا انداز۔۔ کہ میں تو آپ کو جانتا ہی نہیں۔
"کیا میں نہیں آ سکتا!؟" انہوں نے حیرت کا اظہار کیا۔
"نہیں!" اپنے سویٹر کی جیبوں میں اس نے مٹھیاں بھینچ لیں۔
لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ لیے وہ جھک کراسے بغور دیکھنے لگے۔ وہ پہلے سے بہت سے زیادہ کمزور لگ رہا تھا۔ رنگت زرد تھی۔ ہونٹ خشک اور بےرنگ تھے۔یقینا وہ کئی دنوں تک بیمار رہا تھا۔
"ہم دونوں بسٹ فرینڈز ہیں فارس!" انہوں نے یاد دلایا۔
"ہماری دوستی اب ختم !"
"دوستی ختم ؟؟! !" ڈاکٹر مصطفیٰ کو صدمہ پہنچا۔"ہم نے تو اتنے وعدے کیے تھےیار۔۔۔"فرینڈز فار ایور" ہیں ہم!!"
بھنویں سکیڑے وہ ذرا سی خفگی کے ساتھ کہیں اور دیکھنے لگا۔ گویا دوستی بغیر کسی وجہ کے ختم کی جا رہی تھی۔مگر "وجہ" تھی۔ ڈاکٹر مصطفیٰ سمجھ چکے تھے وجہ کیا تھی۔ وہ کیوں اس رویے سے بات کر رہا تھا۔کیوں ایک فاصلہ سا برقرار رکھے ہوئے تھا۔۔۔ وہ اس خوف کو محسوس کر سکتے تھے جو کم عمری میں اس کے اندر جڑ پکڑ رہا تھا۔۔کھو دینے کا احساس، تنہا رہ جانے کا خدشہ۔۔۔ بچھڑ جانے کا غم۔۔۔
انہیں دکھ ہوا۔
وہ کافی دیر تک اس کے پاس بیٹھے رہے۔ادھر ادھر کی باتیں کرتے اسے الجھاتے رہے۔کسی بات پر خود ہنس پڑتے،کسی بات پر ہنسانے کی کوشش کرتے۔۔مگر وہ سدا کا ضدی ۔۔رخ موڑے بس انہیں خفگی ہی دکھاتا رہا۔۔۔
"اگلے ہفتے ملاقات ہو گی!" جانے سے پہلے انہوں نے کہا۔
"میں گھر نہیں آؤں گا" اس نے بھی واضح کر دیا۔
"تم نہ أو بھئی۔۔۔۔۔ ہم تو آتے رہیں گے!"
وہ کہہ کر گئے اور اپنی بات پر قائم بھی رہے۔ہر ویکنڈ پر وہ آغا علی کے ہمراہ اس سے ملنے آ جاتے۔۔ پندرہ بیس منٹ وہ بحث کرتے ہوئے اسے غصہ دلائے رہتے کہ جو دوستی اس نے ساڑھے چھے سال کی عمر میں ایک ساٹھ سالہ بوڑھے سے کی تھی وہ کسی بھی صورت ختم نہیں ہو سکتی۔۔ اس کے بعد وہ بولتے رہتے اور وہ سنتا رہتا، کبھی لڑ پڑتا،کبھی رونے لگتا۔کبھی غصہ دکھاتا اور کبھی ان کے بازوؤں میں سمٹ جاتا ۔
"مجھے وہ بہت یاد آتی ہیں!"اسکی آنکھیں آنسوؤں سے مکمل بھر جاتیں۔گال ناک سرخ ہونے لگتے۔
"وہ بھی تمہیں بہت یاد کرتی ہونگی!"
"نہیں!" وہ نفی میں سر ہلاتا۔ " وہ مجھے بھول چکی ہیں۔"
"جو پیار کرتے ہیں وہ کبھی نہیں بھولتے!"
"انہیں مجھ سے پیار نہیں تھا، اس لیے وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئیں!"
"تمہیں ان کی مجبوری کو سمجھنا چاہیے بیٹا!"
" وہ حماد کی ممی ہیں،صرف اور صرف حماد کی ممی ہیں!"زہن میں صرف ایک ہی بات رہ گئی تھی کہ اگر وہ اسکی ممی ہوتیں تو اسکے پاس ہوتیں۔
ڈاکٹر مصطفیٰ گہری سانس لے کر رہ جاتے۔انہوں نے بارہا کوشش کی کسی طرح جمیلہ داؤد سے رابطہ ممکن ہو سکے مگر وہ ناکام رہے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ کچھ حد تک وہ سمجھ گیا،سنبھل بھی گیا۔۔۔مگر جمیلہ داؤد کے جانے سے جو خلاء اسکی زندگی میں پیدا ہوا وہ کسی صورت پورا نہ ہو سکا۔
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...