معمول کی طرح وہ فارس وجدان کے ساتھ جم میں موجود تھی۔ روزمرہ کے تمام ورک آؤٹ کرنے کے بعد تھکی ہاری سی ٹریڈ مل پر کھڑی تھی اور عجلت میں قدم اٹھاتی بار بار ٹائم دیکھ رہی تھی۔ مڑ کر پیچھے دیکھا تو فارس موبائل فون سے لگائے بات کرتا ہوا نظر آیا۔ پشت اسکی طرف تھی۔ نچلا لب دانتوں تلے دبائے وہ بٹن آف کر کے اتر گئی۔خیال تھا اسے پتا نہیں چلے گا مگر اسی وقت کال سی فارغ ہوتے ہی وہ اچانک سےمڑا۔ پھر واچ بینڈ پر ٹائم دیکھتا اس کے پاس آ گیا۔
"تین منٹ باقی تھے۔۔"
"نہ۔۔نہیں تو۔۔۔۔"
" دوبارہ کرو اور پورے پندرہ منٹ تک!!!" لہجے میں ذرا سی سختی تھی۔
"کیااااا؟" وہ ایک دم سے چیخی۔
"یہ پہلے دن سے طے تھا کہ تم جب بھی کوئی ورک آؤٹ پیج میں چھوڑ دو گی تو تمہیں سزا ملے گی!!!"
"صرف تین منٹ باقی تھے!!،،" وہ احتجاجا چلائی مگر فارس نے سنی ان سنی کیے اسے دوبارہ ٹریڈ مل پر کھڑا کر دیا۔
پندرہ منٹ تو جیسے اسکے لیے پندرہ گھنٹے ہو گئے۔سزا ختم ہو گئی مگر غصہ ختم نہ ہوا۔ناراضگی ختم نہ ہوئی۔ وہ آفس چلا گیا تو سیدھا مسز شیرازی کے پاس پہنچ گئی۔ ۔
"صرف تین منٹ پہلے اتر گئی تھی میں آنٹی!! صرف تین منٹ!! اور اس نے پندرہ منٹ بڑھا دیئے!!" مسز شیرازی کو خوب شکایت لگائی۔ بتاتے ہوئے رونا بھی آ رہا تھا۔انہوں نے اسکے سامنے فون کر کے فارس کی کلاس لی۔
"ممی وہ ورک آؤٹ کرتے ہوئے بلکل سیریس نہیں ہوتی!"
سپیکر آن تھا تو آواز اس نے بھی سنی۔ صدمے سے منہ کھلا۔
"جھوٹ کہہ رہا ہے یہ !!" تڑپ کر دفاع کیا۔۔۔" میں اتنی محنت کرتی ہوں۔۔۔" آنکھیں آنسووں سے بھر گئیں۔
"یہ چاہتی ہے سبھی ورک آؤٹ ایک منٹ میں کر کے فارغ ہو جائے۔۔۔۔۔ ممی کیا یہ پاسیبل ہے؟؟؟" وہ کہہ رہا تھا۔
مسز شیرازی کبھی اسے دیکھیں۔۔کبھی اسکی سنیں۔۔
"اگر اس سے تین منٹ مس ہوئے تو تمہیں صرف تین منٹ ہی زیادہ لینے چاہیے تھے۔۔ تم نے میری بہو کو پورے تیس منٹ ٹریڈ مل پر کھڑے رکھا۔۔دس از ناٹ فیئر فارس!!!" اب وہ موٹے موٹے آنسو آنکھوں میں بھر لائی تھی تو وہ فورا سے اسکی حمایت میں اتریں ۔
"ممی یہ اسکی پنیشمنٹ تھی! اب کیا میں اس سے یہ کہتا دس دفعہ الف بے لکھ کر دکھاؤ؟؟" وہ ان کی ڈانٹ سن کر نرمی سے بات کر رہا تھا۔وہ لاجواب ہوئیں۔پھر سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ سر جھکائے وہ آنسوؤں کو پرے دھکیل رہی تھی۔انہیں اس پر ترس آیا۔
"تم درگزر کر دیتے بیٹا!"
"روز کرتا ہوں ممی۔ آپ اس سے پوچھیں۔۔۔کل اسنے دس بار بائسیپس ورک آؤٹ کرنا تھا اور اس نے صرف چھے بار کیا۔۔۔دو منٹ کی بریک ہوتی ہے یہ پورے پانچ منٹ لے لیتی ہے۔۔روز مجھے اسے گھر کے کسی کونے سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر جم لے جانا پڑتا ہے۔۔۔۔پندرہ منٹ تو ایسے ضائع ہو جاتے ہیں۔۔۔۔حالانکہ یہ اچھی طرح سے جانتی ہے میرا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔۔۔۔" اتنی ساری شکایتیں۔۔۔جنت کو صدمہ ہوا۔۔دکھ ہوا۔۔سر جھکتا گیا۔۔مسز شیرازی سپیکر آن کرنے پر پچھتائیں۔
"خیر جو بھی ہے۔۔۔" انہوں نے لہجہ سخت کیا۔ "تمہیں میری بہو کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے!!!"
دوسری طرف وہ خاموش ہوا۔
"فارس۔۔۔۔!!!؟"
" ٹھیک ہے۔ میری بات کروائیں اس سے۔۔آئندہ الف بے لکھوا لیا کروں گا۔۔۔پھر نہ کہے سو دفع کیوں لکھوا رہا ہوں۔۔۔"
"آنٹی اس کو دیکھیں!" چڑ کر سر اٹھایا۔مسز شیرازی کے لیے مسکراہٹ دبانا مشکل ہو گیا۔"فارس!!" مصنوعی خفگی سے اسکا نام لیا۔
" اس سے کہیں مجھ سے بات نہ کرے اب کبھی!!" رونی صورت لیے اٹھ کر باہر نکل گئی۔ مسز شیرازی اسے دیکھ کر رہ گئیں۔
اپنے کمرے میں جا کر اس نے آنکھیں رگڑ کر صاف کیں۔ پھر کپڑے بدل کر باہر آئی اور مسز شیرازی سے اجازت لے کر اقصیٰ کے ہمراہ پارک چلی گئی۔
فارس سے ناراض تھی تو نہ اس سے بات کر رہی تھی نہ اسکی کال ریسیو کر رہی تھی۔کچھ وقت کھلی فضاء میں بتانے کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوئی تو سڑک کے عین کنارے اس کی گاڑی آ رکی۔
"تمھارا تو ایک ایک لمحہ قیمتی ہے نا۔۔تم یہاں کیا کر رہے ہو!؟؟" سلگ کر پوچھا۔ اقصیٰ پیچھے تھی۔ جنگلا عبور کر کے باہر آئی تو فارس کو دیکھ کر حیران ہوئی۔اسکے صاحب۔۔اس وقت یہاں!!!!؟؟؟؟
"بیٹھو!" فارس نے اس کے لیے پسجنر سیٹ کا دروازہ کھولا۔اقصی ساتھ تھی تو وہ ضبط کر کے بہت خاموشی سے بیٹھ گئی۔موڈ بری طرح سے آف تھا۔
"اپنا خیال رکھیے گا آپی!" دروازہ بند کر کے اقصیٰ نے کہا۔۔ ہاتھ بھی ہلائے۔۔گڈ لک اور thumbs up بھی دیکھائے۔۔
"کیوں تمھاری مالکن کےٹو سر کرنے جا رہی ہے!؟" کھڑکی کا شیشہ نیچے کر کے فارس نے جھاڑا۔ اقصیٰ بے طرح سے گڑبڑائی۔
" نہیں۔۔۔وہ۔۔میں۔۔۔۔۔"
"یہاں سے سیدھا گھر جاؤ!" تحکم سے کہا۔وہ مؤدب سی شریف بچوں کی طرح ناک کی سیدھ میں روبوٹ کی طرح چلتی گئئ۔ بھولے سے بھی مڑ کر نہ دیکھا۔
فارس نے گاڑی ریورس کی۔ جنت کھڑکی کی طرف رخ کیے چپ بیٹھی رہی۔۔۔ وہ بھی خاموش رہا۔۔۔
"ابھی تک ناراض ہو؟؟" مین روڈ پر گاڑی ڈالتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔
"بات مت کرو مجھ سے!!"
"مگر کیوں؟"وہ دھیرے سے مسکرایا۔
"تم نے آنٹی کو میری اتنی شکایتیں لگائیں۔۔۔۔" اصل غم یہ تھا۔۔
"تم بھی تو لگاتی ہو!!"
گڑبڑا کر اسے دیکھا۔ "میری بات الگ ہے!!"
"تمھاری بات کیوں الگ ہے؟"
اپنا منہ بند کر کے اس نے اپنا رخ کھڑکی کی طرف کر لیا۔۔
"اچھا آئم سوری!! آئندہ ان سے کچھ نہیں کہوں گا!!"
"تمہیں لگتا ہے میں صرف اس بات پر ناراض ہوں کہ تم نے میری شکایتیں لگائیں؟؟"
"تو اور کس بات پر ناراض ہو؟"
"کیا تم نہیں جانتے؟؟" صدمے سے،دکھ سے پوچھا۔اس نے نفی میں سر ہلایا۔
" تم نے مجھے پچیس منٹ ٹریڈ مل پر واک کروائی۔۔تم نے۔۔۔"
فارس نے گہری سانس لی۔۔ "اب میں اس کے لیے سوری نہیں کر سکتا۔" صاف کہہ دیا۔ چند لمحوں تک اسے سخت نظروں سے گھورتی رہی پھر اپنا رخ بدل گئی۔
"کیا بہت تھک گئی تھیں؟؟"
خاموشی۔۔۔۔
"ٹھیک ہے۔۔اس کے لیے بھی سوری۔۔لیکن وعدہ کرو آئندہ کوئی بھی منٹ مس نہیں کرو گی!"
مکمل خاموشی۔۔۔۔۔
"پیزا ہٹ چلیں؟؟" مڑ کر پوچھا۔ لیکن وہ تو جیسے وہاں تھی ہی نہیں۔۔۔۔
"لونگ ڈرائیو کے بارے میں کیا خیال ہے؟ خوب باتیں کریں گے؟"
اسکا سر کھڑکی کی طرف ہی رہا۔ وہ اسے رج کے نظرانداز کر رہی تھی۔
" آئیس کریم کھاؤ گی؟؟"
خاموشی۔۔۔۔ وہ مین روڈ پر گاڑی ڈالے ہوئے تھا۔گہری سانس کھینچ کر کسی جانب موڑ کاٹنے لگا تو آواز آئی۔ "کھلا دو!!" ویسی ہی روٹھی ہوئی سی آواز۔۔۔اکھڑا ہوا سا انداز۔۔۔۔ وہ مسکراہٹ ضبط کر گیا۔۔
"جو آپ کا حکم!!"
"لیکن گاڑی میں ہی کھائیں گے!" اس نے کہہ دیا۔فارس نے سر ہلایا۔
گاڑی پارک کر کے وہ آئیس کریم لینے چلا گیا۔ کھڑکی کی طرف رخ کیا وہ اسے آئیس کریم پارلر میں داخل ہوتا دیکھ سکتی تھی۔ایسے ہی خیالوں میں گم اسکی باتیں سوچ رہی تھی جب سامنے ہی ایک سفید گاڑی آ رکی۔ دروازہ کھول کر سفید ٹراؤزر پر سرخ رنگ کی شرٹ زیب تن کیے عدینہ زبیر باہر نکلی۔ گلاسز اپنے بالوں میں اٹکاتے ہوئے پرس کندھے پر ڈالا اور موبائل کان سے لگائے ہنستے ہوئے عجلت میں قدم اٹھاتی اندر داخل ہو گئی۔
جنت کی سانسیں تھم گئیں۔ دل رک گیا۔ ایک دم سے خود پر طاری اس جمود کو توڑتے ہوئے وہ دروازہ کھول کر باہر نکلی۔حرکت غیر ارادی تھی۔ اسکا رخ گلاس ڈورز کی طرف تھا۔ وہ جیسے عدینہ زبیر سے پہلے فارس وجدان تک پہنچ جانا چاہتی تھی۔
شیشے کی دیواروں سے اندر کا منظر نمایاں تھا۔ اس کے قدم زمین پر جم گئے۔ نگاہیں ایک ہی مقام پر ٹھہر گئیں۔
فارس وجدان کے ساتھ عدینہ زبیر موجود تھی۔۔۔اسکی نفیس انگلیوں کی گرفت فارس کے بازو پر۔۔اسکی دلفریب نگاہیں فارس کے چہرے پر تھیں۔۔منظر واضح ہو کر اگلے ہی پل دھندلا گیا۔وہ ایک دم سے پیچھے ہٹی۔۔۔ خود پر قابو پائےواپس پلٹی۔ دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔مٹھیاں سختی سے بھنچ گئیں۔
ماہین اور برھان۔۔۔ زہن کے پردوں پر کئی منظر لہرائے۔۔کئی باتیں یاد آئیں۔۔کئی خدشے۔۔کئی وسوسے۔۔۔کئی خوف سے لپٹے واہمے اسکے اندر سما گئے۔۔۔ وہ اندر تک ہل گئی تھی۔
"میری زندگی میں کوئی عورت نہیں ہے!"
اس نے گہری سانس لے کر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔۔ تین سے پانچ منٹ کا دورانیہ۔۔۔جو کہ بڑھتا گیا۔۔۔سات منٹ۔۔۔نو منٹ۔۔۔پندرہ منٹ۔۔۔۔۔۔ عدینہ زبیر کی گاڑی سامنے ہی کھڑی رہی۔فارس وجدان باہر نہ آیا۔ اسکا دم گھٹنے لگا۔اسے وحشت سی ہونے لگی۔
یکایک شیشے پر دستک ہوئی ۔اس نے چونک کر سر اٹھایا۔ فارس نے شیشہ کھولنے کا اشارہ دیا تھا۔ اس نے کپکپاتی انگلیوں سے دروازہ کھول دیا۔
"سوری تھوڑا لیٹ ہو گیا!" کہہ کر دونوں کپ اسکی طرف بڑھائے جسے بغیر کسی تردد کے اس نے لے لیے۔لمحے بھر کے لیے اسکا چہرہ دیکھ کر وہ چونکا تھا۔ پھر گھوم کر سیٹ پر آ بیٹھا۔
"تمہیں کیا ہوا؟" پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
"کچھ نہیں۔۔۔" کور اتار کر اس نے چمچ نکال لیا۔
"طبیعت ٹھیک ہے؟"
"ہاں!" کہہ کر آئیس کریم کھانے لگی۔اس نے چند لمحوں تک اسے دیکھا پھر اپنی آئیس کریم گلاس سٹینڈ پر رکھ دی۔ گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے وہ چھوٹے چھوٹے چمچ خود بھی لے رہا تھا۔
گاڑی میں پہلے صرف خاموش تھی۔۔مگر اب تو جیسے سناٹا سا اتر آیا تھا۔
"گھر چلیں!!" وہ کہہ رہی تھی۔ فارس نے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔آج کے دن کے لیے اسکے پاس بہت سے پلینز تھے۔۔مگر۔۔۔۔۔
"میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے!"وہ اب کہہ رہی تھی۔۔
اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے گاڑی کا رخ گھر کی طرف موڑ دیا تھا۔
★★★★★★★★

ESTÁS LEYENDO
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...