عسریسرا از حسنیٰ حسین
گیارویں قسط :★★★★★★★★
★★★★★★★★فارس وجدان اس سے ناراض ہو چکا تھا۔ پیکنگ کے دوران اسکے آگے پیچھے پھرتے ہوئے اس نے بات کرنے کی کوشش کی تو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ تیاری کرتے ہوئے بار بار مخاطب کر رہی تھی مگر وہ تو ایسا ہو گیا جیسے کچھ سن ہی نہ رہا ہو۔کھانے کی میز پر بھی انتہاء کی خاموشی تھی۔ اب وہ وہی کھڑوس، مغرور اور بدمزاج فارس تھا!!(پرانے والا!)
جنت حیران تھی۔ آخر اسے ہوا کیا تھا؟ایسی کونسی بات تھی جو اسے بری لگ گئی تھی؟
"اچھا ٹھیک ہے۔۔ کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔۔ "خاصی سوچ و بچار کے بعد ذرا سا احساس ہوا تو کہہ دیا۔گاڑی ایئرپورٹ کی جانب رواں دواں تھی۔وہ عقبی نشست پر اسکے برابر میں بیٹھی تھی۔
" پورے پاکستان کو بتاو میری بلا سے!" ایک شان اور تمکنت سے براجمان وہ کروفر سے کہہ کر باہر دیکھنے لگا۔ جنت حیران ہوئی۔ "واقعی؟" پھر کندھے اچکا کر اس نے بھی رخ بدل لیا۔
لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر عدیل احمد نظر آیا تو چھوٹتے ہی پوچھ لیا۔
"مسٹر عدیل!!!کیا آپ کسی ایسے انسان کو جانتے ہیں جو نیند میں باتیں کرتا ہو؟"
"سوری؟"عدیل کو جنت کمال کی بات خاک سمجھ نہ آئی۔
"مطلب جو نیند میں باتیں کرے۔ میں ایک کو جانتی ہوں۔" ہاتھ سے اپنی طرف اشارہ کیا یوں جیسے بڑے اعزاز کی بات ہو۔
فارس نے غصہ دباتے ہوئے جنت کو بازو سے پکڑ کر اپنی دائیں طرف کھڑا کیا۔"باز آ جاؤ تم!"
"نہیں باز آسمان پر ہی ٹھیک ہے، اسے نیچے مت بلاؤ تم!"
وہ بڑے مزے میں تھی۔"اینڈ بائے دا وے تم نے خود مجھے کہا سب کو بتا دو۔۔اب کیا مسئلہ ہے؟"
وہ ضبط کر کے جھٹکے سے پلٹ گیا۔
ایئرپورٹ کے ویٹنگ ایریا میں تو اس نے انتہاء کر دی۔قریب بیٹھے کسی سوٹس بوٹڈ آدھے انگریز،آدھے پاکستانی انکل سے سلیپ ٹاکنگ کا موضوع چھیڑ دیا۔وہ بتا رہے تھے کہ کیسے ان کے عزیز نیند میں چلا کرتے تھے اور کیسے وہ ایک بار گھر سے باہر نکل گئے تھے۔اوروہ بڑا حیران اور بڑا پریشان ہو رہی تھی۔ "کیا واقعی انکل ؟؟ ایسا ہی ہوتا ہے!!؟؟اوہ میرے اللہ!!!اچھا پھر؟؟؟ پھر کیا ہوا تھا؟؟"
وہ سیٹ آرم پر کہنی ٹکائے ،اور ہاتھ کو پیشانی اور آنکھوں پر رکھے ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا۔
انکل صاحب سے گفتگو ختم ہوئی تو محترمہ کو بھوک لگ گئی۔ بیگ سے چپس کا پیکٹ نکال لیا۔ فارس کو آفر کی تو وہ اچھا خاصا جلا بھنا بیٹھا تھا رسپانس تک نہ دیا۔ وہ کندھے اچکا کر رخ بدل گئی۔ چپس کے چند پیکٹ ۔۔۔ پھر چاکلیٹس، بسکٹس نکال لیے۔۔۔ وہ مزے سے کھا رہی تھی تو سامنے بنچ پر بیٹھے بچے اس پر سنجیدگی سے نظریں جمائے ہوئے تھے۔ بیگ تھا یا کوئی جادوائی تھیلا۔۔۔۔چیزیں ختم ہی نہیں ہو رہی تھیں۔ اسی دوران ایک نھنی سی بچی نظروں میں آ گئی۔ اسکے پیروں میں پھولوں جیسے جوتے تھے ۔ جب وہ قدم اٹھاتی تھی تو سرخ روشنی سی بکھرتی تھی۔
"ہم بھی ایسے جوتے لیں گے!" فارس کی جانب جھک کر کہا۔ وہ موبائل پر کچھ لکھ رہا تھا ،سر اٹھا کر دیکھا۔پھر دیکھتا ہی رہا۔ بچی نے نیا نیا چلنا سیکھا تھا۔فراک میں تو کوئی کھلتا ہوا پھول ہی لگ رہی تھی۔
"ٹھیک ہے، "ہم" یہی لیں گے!" وہ منظر دیکھ کر اسکا موڈ خوشگوار ہو گیا.
" میں صرف اپنی بات کر رہی ہوں!" محترمہ کو ہوش آیا تو پھر سے ٹوکا۔
" یہ "ہم" اب صرف تم ہو؟؟؟" اب کے کڑے نظروں سے اسے گھورا۔ وہ سٹرا دانتوں میں دبائے رخ بدل گئی ۔ فارس کی نگاہیں کافی دیر تک اس بچی کے تعاقب میں رہیں۔
"تمہیں لگتا ہے جب ہمارا بےبی آئے گا تو ہم الگ ہو سکیں گے!؟"اس نے کہا۔ جنت نے چونک کر اسے دیکھا۔سٹرا منہ میں ٹھہر گیا۔۔ اندر تک خاموشی چھا گئی۔
"تم میں ایسا کرنے کی ہمت آ سکتی ہے۔مجھ میں تو بلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔۔" وہ سچ کہہ رہا تھا۔ وہ جتنا ہی مضبوط تھا۔۔اپنی اولاد کے لیے اتنا ہی کمزور ہو سکتا تھا۔
"تم مجھے پریشان کر رہے ہو!"جنت کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔آنکھیں ،ناک ،گال سرخ ہونے لگے۔
"اوہ گاڈ!! کیا ہو گیا ہے۔۔۔ " وہ صحیح معنوں میں گھبرایا تھا۔ " میں نے تم سے یہ تو نہیں کہا میں اسے تم سے چھین لوں گا!"
"مجھے یہی سمجھ آیا ہے۔۔۔" وہ رو پڑی۔
"تمہیں غلط سمجھ آیا ہے۔۔فار گاڈ سیک!!رونا بند کرو۔۔لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں!! جنت۔۔۔۔"
"ہاں تو دیکھنے دو۔۔ انہیں پتا چلنا چاہیے۔۔۔ تم کتنے برے ہو۔۔۔"
وہ اٹھ کراپنی پشت پر ہاتھ باندھے اسکے آگے کھڑا ہو گیا تھا تاکہ کسی کو یہ پتا نہ چلے وہ کتنا براہے۔وہ اسکی اس حرکت پر سیخ پا ہو گئی۔
"ہاں چھپ کر روتی رہوں کوئی پرواہ نہیں۔۔یہ نہیں کہ دو لفظ تسلی کے بول دو۔۔۔" پست آواز میں شکوہ کیا۔
وہ قدرے حیرت سے اسکی طرف مڑا۔
"اب میں تم سے کیا کہوں؟؟" برابر میں بیٹھ کر پوچھا۔ "یہی کہ میرے بچے کو پورا کا پورا اپنے پاس رکھ لینا۔۔میں ہفتے میں ایک دن مل لیا کروں گا؟؟؟یا پھر یہ کہ خلع کے لیے جو وکیل چاہیے وہ میں ہائیر کر دوں گا؟؟!!!" وہ لمحے بھر کے لیے تھمی۔ اندر ہی اندر اور رونا آیا۔
"خبردار جو مجھ سے تم نے بات بھی کی تو۔۔۔"اپنا بیک پیک اسکی گود میں پٹخ کر دوسرے بنچ پر جا بیٹھی۔ فارس گہری سانس لے کر رہ گیا۔
"سارے مرد ایک جیسے ہوتے ہیں!" آنسو صاف کرتے ہوئے بڑبڑائی۔
"ہاں مگر آپ کے والا تو خوبصورت بھی بہت ہے۔"آنٹی جی نےکتاب سے نظر ہٹا کر عینک آگے پیچھے کر کے اس کے والے کو بغور دیکھتے ہوئے تبصرہ کیا۔ غالبا وہ کافی دیر تک ان کی چخ پخ ملاحظہ فرما رہی تھی۔ "شوہر ایسا ہو تو بیوی کو کیا خاک سکون کی نیند آتی ہو گی!"
"یہ تو آپ نے بلکل ٹھیک کہا!" انکی بات سمجھے بغیر اس نے اپنی کہی۔
" گڈ لکنگ مردوں کی بیویوں کو بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے!"
جنت کا منہ کھلا۔بات تو جیسے اب سمجھ آئی۔ " کوئی گڈ لکنگ نہیں ہے وہ!" تڑپ کر کہا۔آنٹی جی نے اب کے عینک ناک پر کھسکا کر اسے گھورا۔ بھلا یہ کیسی بیوی تھی جس سے اپنے شوہر کی تعریف برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
"نظر رکھا کرو اس پر!" ماؤں کی طرح نصحیت کی۔
" مجھے نہیں رکھنی کوئی نظر وظر۔۔۔۔" بگڑ کر سینے پر بازو باندھے۔ ٹانگ پر ٹانگ رکھی۔ " کرتا ہے تو کر لے دوسری،تیسری،چوتھی شادی!"رونے کے باعث محترمہ کی آنکھیں اور ناک سرخ ہو رہی تھی۔
آنٹی جی کو اسکی خود سری پر غصہ آ گیا۔ یہ آجکل کی نوجوان نسل۔۔برداشت تو ہے نہیں ان میں۔۔۔ لو بتاو۔۔دوسری تیسری چوتھی شادی۔۔۔۔ یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے؟؟ اور کل کو اگر دوسری تیسری چوتھی آ گئی تو لگ پتا جائے۔۔آنٹی کی برہمی دیکھ کر وہ ذرا مدھم پڑی۔ ابھی تو اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ماں بننے والی ہے اور یہ بھی کہ وہ کورٹ میں جا کر خلع لے گی۔پھر شاید وہ جوتا ہی اتار لیتیں۔
فارس کو مکمل نظرانداز کیے وہ ان سے باتیں کرنے لگی۔
آنٹی کے پاس بہت سے مفت مشورے تھے۔انہوں نے ہاتھ تھاما اور شوہر کو مٹھی میں کرنے کے گر سکھانے لگیں اور گر سکھاتے سکھاتے اپنے نند اور جیٹھانی کے قصے چھیڑ کر بیٹھ گئیں۔ جنت انکی خاندانی سیاست اور مسلوں میں ایسی الجھی کہ فارس کے ساتھ اپنی لڑائی غصہ ناراضگی سب بھول بھال گئی۔اسکا ہرے رنگ کا بیک پیک اپنے گٹھنے پر رکھے فارس نے بےساختہ سکھ بھرا سانس لیا۔پندرہ منٹ بڑے سکون سے گزرے۔ اعلان ہوا تو وہ اٹھ کر اسکے پاس آیا۔
"میرا تو یہ فورتھ منتھ چل رہا ہے!" وہ سارے حال احوال یوں دے رہی تھی جیسے کئی سالوں کی شناسائی ہو۔اور آنٹی جی بھی تسبیح کے دانے گھماتے ہوئے یوں خوش ہوئیں جیسے وہی نانی بننے والی ہوں۔پریگننسی کے حوالے سے بھی نصیحتیں کیں۔ جاتے وقت فون نمبرز کا بھی تبادلہ ہوا۔
"میں آپ کو بہت مس کروں گی آنٹی!" ان سے گلے لگ کر بولی۔ فارس نے آنکھیں گھمائیں۔ سر سراہ چلتے کسی سے بھی اسکی دوستی ہو جاتی تھی۔
"کاش میری سیٹ آپ کے ساتھ ہوتی !"
"ہاں!کاش!" فارس نے ہاتھ پکڑ کر دانت پیسے اور اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔
"صبر نہیں ہے تم میں!" اسے برا لگا۔
٫پچھلے ایک گھنٹے سے صبر ہی تو کر رہا ہوں!"
"ہاں تو کیا اس میں میرا قصور ہے فلائٹ لیٹ ہو گئی؟"
"سراسر میری غلطی ہے!" وہ معترف ہوا۔اور اسکا ہاتھ گرفت میں لیے آگے بڑھ گیا۔ وہ محض اسے گھور کر رہ گئی تھی۔
★★★★★★★★
★★★★★★★★
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...