بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عسریسرا از حسنیٰ حسین
نویں قسط:
★★★★★★★
موبائل پر فارس کا مسج موصول ہوا تھا۔جنت اپنی بوا کے پاس تھی۔ وہ اسے واپس لا رہا تھا.
مسج پڑھتے ہی سائرہ جائے نماز پر تسبیح لیے بے ساختہ سجدے میں گر گئی تھیں۔یہ سجدہ۔۔۔ سجدہ شکر تھا۔۔۔پلٹنے کے لیے۔۔۔ سمٹنے کے لیے۔۔اور بدلنے کے لیے تھا۔۔۔وہ اپنا احتساب کر رہی تھیں۔ ایک یتیم بچی کے لیے ان سے بھول ہوئی تھی۔
انہیں وہ وقت اچھی طرح سے یاد تھا جب بیماری کے دنوں میں ان کے والد نے فون کر کے اپنے گھر بلایا تھا۔ اپنے پاس بٹھا کر انہوں نے جنت کمال کے متعلق وصیت کرتے ہوئے اپنے کوئٹہ والے مکان کے کاغذات کے ساتھ ساتھ ایک بند لفافہ ان کے ہاتھوں میں پکڑا دیا تھا۔
"اگر کبھی خاندان میں جنت کی زندگی تنگ ہو جائے تو اسے کھول لینا!"
وہ لفافہ اگلے پانچ سالوں تک ان کی الماری میں محفوظ اور بند پڑا رہا تھا۔
اس لفافے کو کھولنے کا خیال انہیں پورے پانچ سال بعد اس وقت آیا تھا جب برھان اسے طلاق دے چکا تھا ،اور نفیسہ وفات پا چکی تھیں۔ سگے چچا نے جنت پر تسلط جما لیا تھا، وہ اسکا رشتہ زمان صفدر کے ساتھ طے کر رہے تھے۔ وہ جنت کے ہر معاملے میں خود کو قطعی بےبس تصور کرتی تھیں۔ سو انہیں ایک یہی حل ہی نظر آیا تھا۔
بند لفافے میں ایک کاغز تھا جس پر جمیلہ داؤد شیرازی کا نام اور شیرازی مینشن کا ایڈریس لکھا تھا۔ نیچے کہیں شیرازی انٹرپرائزز کا فون نمبر بھی تھا۔
سنہری حروف کا ایک قیمتی بزنس کارڈ ، جو یقینا قریبی ساتھیوں کو عطا کیا جاتا ہے۔ اور چند دعوت نامے۔۔۔۔ان میں ایک دعوت نامہ کسی حماد شیرازی کی سالگرہ کا تھا۔
اگلے کئی لمحوں تک وہ انہیں ہاتھ میں لیے بیٹھی رہ گئ تھیں۔ شیرازی خاندان کے ساتھ ڈاکٹر مصطفیٰ کے تعلقات کتنے دیرینہ اور گہرے رہے تھے ،اسکا اندازہ ان کارڈز سے بخوبی ہو رہا تھا۔چونکہ شیرازی خاندان ایک نامور خاندان تھا سو اس ایک لمحے میں ،کئی خبریں، کئی قصے اور کوئی باتیں ان کے زہن میں گھوم گئی تھیں۔
لفافے میں ایک چھوٹا سا کاغز تھا جس میں جمیلہ داؤد کے نام ایک تحریر لکھی تھی۔
"میری نواسی جنت کمال اب آپ کی امانت ہے۔" مختصر سی عبارت۔۔مزید کوئی حوالہ۔۔کسی طرح کا کوئی اشارہ نہ تھا۔
پہلے پہل تو وہ کچھ سمجھ ہی نہ پائیں مگر پھر شام تک انہوں نے اپنے بیٹے کی مدد سے جمیلہ داؤد سے متعلق معلومات حاصل کر لی۔
جمیلہ داود آجکل اسلام آباد میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔ایڈریس ملتے ہی اگلے دن وہ ملاقات کے لیے اسلام آباد ان سے ملنے چلی گئی تھیں۔
وجدان ہاوس کے گیٹ پر سخت سکیورٹی تھی۔ بغیر کسی تعارف یا جان پہچان کے انہیں اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں مل سکتی تھی۔
"آپ مسز شیرازی سے کہہ دیں ڈاکٹر مصطفیٰ کی بیٹی ان سے ملنے آئی ہے۔ " اس نے وہ لفافہ بھی اندر بھجوا دیا جس میں کچھ کارڈز اور وہ خط تھا۔ کچھ ہی دیر بعد گیٹ کھول دیا گیا۔ ایک باوردی ملازم انہیں اندر لے گیا۔
شاندار گھر کے اندرونی احاطے سے ہوتے ہوئے لاونج سے وہ پرتعش ڈرائنگ روم میں آ گئی تھیں۔
سامنے ہی ایک صوبر سی خوبصورت خاتون وہیل چیئر پر آتشدان کے سامنے بیٹھی تھیں۔ کارڈ ہاتھ میں لیے۔۔۔ کچھ حیرت۔۔۔کچھ تڑپ اور کچھ صدمے سے انہیں دیکھتے ہوئے۔۔۔
" ڈاکٹر مصطفیٰ۔۔۔۔ "
انہیں یوں لگا جیسا یہ نام ان خاتون کے اندر ایک زندگی سی دوڑا گیا ہو۔
رسمی تعارف کے بعد انہوں نے جنت کمال کا ذکر چھیڑ دیا۔ وہ بچی جسے ڈاکٹر مصطفیٰ نے پالا تھا، وہ طلاق اور ماں کی وفات کے بعد سخت ترین حالات سے گزر رہی تھی۔ ان کے لہجے اور انداز سے بےبسی جھلکتی تھی۔جیسے وہ جنت کے لیے کچھ بھی کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہوں۔ وہ ان کے پاس صرف اس لیے آئی تھیں کیونکہ خط میں انکا نام لکھا تھا۔
جمیلہ داؤد شیرازی نے پوری بات بہت خاموشی اور توجہ سے سنی تھی۔ کچھ دیر تک وہ خاموش رہی تھیں ،پھر جیسے انہوں نے بغیر کسی تردد کے جنت کمال کا رشتہ مانگ لیا۔
سائرہ اپنی جگہ بلکل خاموش اور ساکت بیٹھی رہ گئیں۔ وہ اس لیے یہاں نہیں آئی تھیں۔یہ سوچ کر تو ہرگز نہیں آئی تھیں۔ اور جس نوجوان کے لیے وہ خاتون رشتہ مانگ رہی تھیں وہ نوجوان تو۔۔۔۔ انکا دماغ ماؤف ہوا۔کتنی ہی دیر تک وہ کچھ کہہ نہ سکیں۔
ایک طرف زمان تھا تو دوسرے طرف۔۔۔ انہوں نے سر اٹھا کر جمیلہ داؤد کو دیکھا۔ جمیلہ داؤد کوئی معمولی خاتون نہ نہ تھیں۔ نہ ہی شیرازی خاندان کوئی عام سا خاندان تھا۔اور جس کے لیے وہ رشتہ مانگ رہی تھیں وہ نامور بزنس ٹائیکون اعظم شیرازی کا پوتا فارس وجدان تھا۔
کتنی ہی دیر تک وہ سوچ میں غرق گم صم بیٹھی رہیں۔
بہت سی باتیں تھیں۔سوالات تھے۔ خدشے تھے۔۔۔مگر چونکہ یہ راستہ ۔۔یہ گھر انہیں ان کے والد نے دکھایا تھا سو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس رشتے پر غور کرنے لگی تھیں۔
فارس وجدان کا پرپوزل قبول کرتے وقت انہیں لگا تھا وہ ٹھیک کر رہی ہیں۔ ان کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں۔ ارادوں میں کوئی جھول نہیں۔فیصلوں میں کوئی مطلب۔۔کوئی غرض نہیں۔۔۔۔ لیکن فرق تھا۔۔ ہر چیز میں فرق تھا۔ایسا رشتہ سدرہ کے لیے آتا تو یقینا وہ انکار کر دیتیں۔جس انسان کی ذات شبہات کے دائرے میں گھوم رہی ہو اسکا انتخاب وہ اپنی بیٹی کے لیے ہرگز نہ کرتیں۔تاہم زمان کے مقابلے میں انہیں وہ مناسب لگا تھا۔ انہوں نے ہر خیال پس پشت ڈال دیا تھا۔ ہر منفی سوچ کی تردید کر دی تھی۔
انہوں نے "رسک" لے لیا تھا۔وہ اسے اپنی اولاد کہتی تھیں،اور بھول گئی تھیں اولاد کے معاملے میں "رسک" نہیں لیے جاتے۔
انہوں نے جمیلہ داؤد کو جنت کے بارے میں زیادہ آگاہ نہیں کیا تھا،وہ اسکا ماضی ،اسکی طلاق کی وجہ تک چھپا گئی تھیں۔
سبھی معاملات طے کر وہ لاہور واپس آ گئیں۔ دو دن بعد نکاح اور رخصتی سرانجام پا گئی اور جنت کمال اس گھٹن زدہ ماحول اور اپنے سگے رشتوں کے تسلط سے آزاد ہو کر اسلام آباد چلی گئی۔
بظاہر سب ٹھیک تھا مگر عجلت میں کیے گئے اس رشتے کو لے کر وہ کبھی کبھار فکرمند ضرور ہو جاتی تھیں۔
عمار کے سوالات، اسکا غصہ ،فارس وجدان شیرازی سے متعلق ملنے والی افواہیں۔۔۔ قصے۔۔۔ قضیے۔۔۔۔وسوسے۔۔۔
مگر وہ جیسے تیسے خود کو مطمئن کر لیتیں۔ اپنے ضمیر کے سامنے ڈٹ جاتیں۔ اپنے نفس کا ہاتھ تھام لیتیں۔اور یقینا تھامے ہی رکھتیں اگر جنت کے گھر چھوڑ دینے کی خبر نہ ملتی۔
اس ایک لمحے میں انہیں احساس ہوا تھا کہ آگ سے بچانے کے لیے انہوں نے اسے گہرے سمندر میں دھکیل دیا ہے۔ آگاہی کا وہ لمحہ ان پر اپنی ذات کے حوالے سے بہت سی حقیقتیں آشکار کر گیا تھا۔
انکے والد نے ایک راستہ دکھایا تھا ، وہ آخری راستہ تھا۔ آخری آپشن۔۔۔ آخری چانس۔۔۔آخری راہ۔۔۔ جب خاندان میں کچھ نہ رہے۔۔ کہیں نہ رہے۔۔کوئی جگہ۔۔کوئی مقام۔۔کوئی آسانی۔۔کوئی رشتہ۔۔۔ کوئی احساس نہ رہے۔۔۔
اور وہ خود کو ہر کسی سے جدااور الگ سمجھتی رہیں۔مخلص اور حساس گردانتی رہیں مگر اب ان پر ادراک ہوا تھا کہ وہ بھی اسی خاندان کا حصہ تھیں جس نے جنت کمال کو Abondon کیا تھا۔ انہوں نے بھی اپنا فائدہ ،اپنی مصلحت، اپنی آسانی دیکھی تھی۔انہوں نے بھی جنت کمال سے چھٹکارا پانا چاہا تھا۔
وہ لفافہ۔۔۔ وہ خط۔۔۔۔ وہ کبھی کھلنا نہیں چاہیے تھا۔ وہ آخری آپشن صرف ایک آپشن ہی رہنا چاہیے تھا۔ وہ کتنی نادان تھیں۔ اپنے والد کی محبت ،ان کی وصیت ،انکا احسان ،انکی خواہش، انکا امتحان سمجھ ہی نہ پائیں۔۔۔
انہوں نے خود کو جنت کے معاملے میں "بےبس" سمجھا تھا۔ مگر وہ بےبس نہیں تھیں۔ خاندان بھر کی ناراضگی تو انہوں نے ویسے بھی مول لے لی تھی۔ پھر اسکا انتخاب وہ اپنے کسی بیٹے کے لیے کیوں نہیں کر سکی تھیں؟ اگر وہ واقعی میں رحمدل اور حساس تھیں تو جنت کمال کی جگہ ان کے اپنے گھر میں ،ان کی اپنی اولاد کی زندگی میں کیوں نہیں بن پائی تھی؟؟ وہ اپنے کسی بھی بیٹے سے اسکا کا نکاح کروا سکتی تھیں۔عمار تو خود کہہ رہا تھا۔
مگر جنت کمال۔۔۔۔ایک طلاق یافتہ بانجھ لڑکی انہیں اپنی اولاد کے لیے کیونکر قبول ہو سکتی تھی؟
یہ ایک تلخ سچائی تھی۔ سانپ جیسی۔۔۔ وجود کو گرفت میں لے کر ۔۔۔سینے پر تنگ پڑنے والی ایک تلخ ،ایک بےرحم سچائی۔۔۔
پورے ستائس دن انہوں نے جنت کی خیریت مانگتے ، اسکی واپسی کی دعاء کرتے گزار دیئے تھے۔ اور اب جب وہ مل گئی تھی تو وہ اسکا سامنا کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھیں۔
شاید یہ ضمیر ہی تھا جو ذات کے آئینوں کو شفاف کرتا جا رہا تھا،نیت پر پڑی ہوئی خود غرضی کی دھول مٹی کو بےدردی سے اڑاتا جا رہا تھا۔
جنت کمال ان کے والد کی امانت تھی۔اور انہیں لگا وہ اس امانت کا پاس نہیں رکھ پائی ہیں۔ وصیت پر عمل نہیں ہوا ہے۔ اور یہ درد۔۔یہ کسک۔۔یہ احساس ندامت تاعمر ان کے ساتھ رہنے والا تھا۔
KAMU SEDANG MEMBACA
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romansa𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...