Chapter:24

501 39 17
                                    

وہ باغ میں مصنوعی آبشار کا نظارا کر کے عقبی دروازے  سے شیرازی مینشن کے احاطے میں داخل ہوا تھا تو نگاہ گھوڑے پر ٹہلتے حماد شیرازی پر ٹھہر گئی ۔۔۔بریچز میں ملبوس وہ اپنے  انسٹرکٹر کے ہمراہ تھا۔۔
حماد شیرازی۔۔۔۔ اس کا بڑا بهائی.... ایک خاندانی ،  عزت دار خاندان سے تعلق رکھنے والی عورت کا بیٹا.... جمیلہ کا بیٹا!
اپنے نھنیال  کی بدولت، ماں کے مضبوط بیگ گراونڈ اور دونوں خاندانوں کے بیچ ہونے والی بزنس ڈیلز کی وجہ سے وہ ایک "ٹرافی چائلڈ" تھا......
پرکشش، زہین اور پھر اس گھر میں وہ اپنے دادا کا لاڈلا تھا..... ماں کا چہیتا.... اور باپ کے لیے تو وہ ویسے بھی اہم تھا....
فارس  کی زندگی سکول سے  فقط اس کمرے تک ہی محدود تھی اور حماد تو اس عمر میں دنیا گھوم رہا تھا.... وہ اپنے باپ کے سائے میں پل بڑھ رہا تھا.. نہ اس نے کوئی محرومی دیکھی تھی.. ..نہ اپنوں کی  جدائی سہی تھی...... دونوں کا تو کسی  صورت کوئی موازنہ نہ تھا....
اعظم شیرازی کی صحبت کااثر تھا کہ حماد نے ان کے جیسی شخصیت اور مغرورانہ اندازاپنا رکھا تھا۔ گھر بھر کا لاڈلا تھا تو انداز اور طور طریقے بھی ایسے ہی تھے جیسے وہ کسی مملکت کاشہزادہ ہی ہو۔۔۔آج اس کا برتھ ڈے تھا اور اسی مناسبت سے شیرازی مینشن کو  ڈیکوریٹ کیا جا رہا تھا۔۔ اسکی ہر خوشی اور کامیابی کو ہمیشہ ایسے ہی شاندار انداز میں سیلبریٹ کیا جاتا تھا۔۔
اس نے اپنے باپ کو دیکھا۔۔۔۔ ھارون شیرازی جینز پر وائٹ شرٹ میں ملبوس۔۔ آنکھوں پر ٹھہرے گلاسز کو اتار کر جیب میں اٹکاتے ہوئے  ایونٹ پلینر  سے بات کر رہا تھا۔۔۔۔
اس نے بس  ایک لمحے کے لیے  اسے دیکھا پھر رخ بدل کر اپنے کمرے میں آ گیا۔۔۔
کمرے کی کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں۔۔ سماعت سے ھارون شیرازی اور حماد کی آواز ٹکرانے لگی۔۔۔
زندگی سے بھرپور قہقہے تھے۔۔ خوشیاں تھیں۔۔۔ اور مسرت کے رنگ جو ان کی آنکھوں سے جھلکتے تھے۔
اسے شیرازی مینشن میں رہتے ہوئے ڈیڑھ سال ہونے کو تھا  مگر وہ ابھی تک ان رویوں کا  عادی  نہیں ہو پایاتھا۔ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی بری طرح سے ڈسٹرب ہو گیا تھا۔
کھڑکیاں دروازے بند کر کے وہ اپنے بیڈ میں گھس کر کتاب پڑھنے لگا۔۔ پھر اس نے ڈرائنگ بوک نکال لی۔۔ کچھ دیر تک رنگ بھرتا رہا۔۔۔ پھر اس نے سٹیکرز اٹھا لیے اور اپنی نوٹ  بوک پر جگہ جگہ لگانے لگا۔۔۔ اس سے بھی اکتا کر اس نے نوٹ بوک کے تمام صفحے پھاڑ ڈالے۔۔۔ انہیں نوچ کھسوٹ کر۔۔ پرزے پرزے کر کے   ڈسٹبن میں پھینکا اورایک بار پھر کھڑکی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔
سفید اور نیوی بلیو رنگ کی تھیم میں سٹیج ڈیکوریٹ کیا  جا چکا تھا۔۔ کرسیاں اور گول میزیں اب ترتیب سے رکھی جا  تھیں۔۔
یکایک ہی اسے نیلا رنگ  بہت برا لگا۔۔۔ سفید رنگ سے اسے یک دم  نفرت ہوئی۔۔۔
اور تب ہی  اس  کی نظر جمیلہ داود پر پڑی۔ وہ انتظامات کا از سر نو جائزہ لے رہی تھی۔ مصروفیت کی بنا پر آج وہ اس سےملنے نہیں آ سکی تھی ۔۔ اور چونکہ آج چھٹی کا دن تھا تو معمول کے مطابق  پچھلے چار گھنٹوں سے اسکا ہی انتظار کر رہا تھا۔۔۔
جمیلہ آج نہیں آئے گی۔۔۔ وہ جانتا تھا۔۔۔ وہ شیرازی ہاوس میں منعقد کیے جانے والے ہر تقریب میں ایسے ہی neglect ہو جایا کرتا تھا۔۔۔ باقی سب نظرانداز کر دیں۔۔ وہ قبول کر لیتا تھا۔۔ جمیلہ سے وہ  نظر انداز ہو جائے تو اسکی جان پر بن جاتی تھی۔۔۔
اور چونکہ شیرازی مینشن میں خاندان بھر کے لوگ اکھٹے ہوتے تھے اس لیے  ہر فنشن، گیدرنگ اور تقریب پر فارس کے لیے ایک ہی اصول ہوتا تھا۔۔۔ شام کے پانچ بجے کے بعد  اسے کسی طور پر بھی اپنے کمرے سے باہر آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔اور  مدحت اس بات کا خاص خیال رکھتی تھی کہ وہ  جلد ہی سو جائے۔۔۔ مگر کیا اسے نیند آ جایا کرتی تھی!؟ شاید نہیں!! یقینا نہیں!!
آج بھی ایک پابندی عائد ہو گی۔۔ آج کی تقریب بھی اس کے لیے ایک سزا کی طرح ہو گی۔۔
اور پھر جیسے زہن میں کوئی خیال ابھرا اور وہ بیگ میں ضرورت کی چند اشیاء۔۔سٹوری بوکس، ڈرائنگ پیپرز، کلرز اور چاکلیٹ وغیرہ رکھ کر باہر نکل گیا۔۔۔
جانے سے پہلے وہ مدحت کے لیے پیغام چھوڑ کر گیا تھا کہ وہ کل تک گھر واپس آ  جائے گا۔۔لیکن وہ جا کہاں رہا ہے یہ اس نے نہیں بتایا۔۔۔
شیرازی مینشن کے عقبی دروازے سے باہر نکل کر باغ میں چلتے ہوئے اس نے صدق دل سے دعاء کی کہ آج بارش ہوجائے۔۔۔ ایسی موسلادھار بارش کا سٹیج اڑ جائے۔۔کرسیاں میزیں ٹوٹ جائیں
۔۔۔۔  سفید رنگ ملگجا سا ہواور آسمانی رنگ پر دھبے پڑ جائیں۔۔۔۔
وہ اب ڈاکٹر مصطفیٰ کی طرف جا رہا تھا۔ مین روڈپر دو منزلہ مکان سے منسلک ان  ذاتی کلینک تھا۔۔جس کی مخالف سمت روڈ کی دوسری طرف  وسیع وعریض رقبے پر پھیلا سبزہ زار، کھیت  کھیلیان  اور باغات تھے۔۔۔  شیرازی مینشن  ان باغات کے عقب میں  بلندی پر واقع تھا۔۔۔ فارس باغ کے راستے اکثر اوقات  ان کے پاس چلا جایا کرتا تھا۔۔۔  کبھی وہ اسے کلینک کے اندر اپنے آفس میں بٹھا کرفارغ اوقات میں باتیں کرتے رہتے اور کبھی اپنے ساتھ گھر لے جاتے۔۔۔
اس دن ان کاآف تھا۔ وہ اسے گھر میں ہی ملے تھے۔۔اور  کچھ حیران ہو کر اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔
بھنویں سکڑی ہوئیں، تیور بگڑے ہوئے۔۔۔۔ اور چہرے پر سرخی سی پھیلی تھی جیسے وہ خود پر ضبط کیے ہوئے ہو۔۔۔
ڈاکٹر مصطفیٰ نے اپنے نھنے مہمان  اندر آنے کا راستہ دیا ۔ اور اس سے قبل کہ وہ خود سے کچھ دریافت کرتے اس نے سر اٹھا کر پوچھا۔۔۔
" کین آئی سٹے ہیئر ٹونائٹ!؟"  (کیا میں آج رات آپ کے پاس رک سکتا ہوں؟"
ڈاکٹر مصطفیٰ نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔۔۔ پھر اپنے بھورے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اسکے سامنے بیٹھ گئے۔۔۔
" ہاں! کیوں نہیں!!کیا تمھاری کیئر ٹیکر  جانتی ہیں کہ آج تم یہاں رہو گے!" ایک لمحے کے لیے اس نے ڈاکٹر مصطفیٰ کو دیکھا۔اس کے  حلق میں  گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی پھر  اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔۔۔
ڈاکٹر مصطفیٰ مسکرا دئیے۔۔۔ اس کے نرم ملائم بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اٹھ کر کچن میں چلے گئے۔۔ وہ بھی اپنا بیگ اتار کر ان کے پاس آ گیا۔۔۔۔
اپنے ساڑھے سات سالہ نھنے مہمان کی خاطر مدارت کرتے ہوئے وہ آج کچھ زیادہ ہی پرجوش اور خوش دکھائی دئیے۔۔۔
" میری سب سے بڑی بیٹی کے یہاں  کل پورے پندرہ برس بعد بیٹا ہوا ہے!"
پلیٹ سے رول اٹھاتے ہوئے فارس نے انہیں دیکھا۔۔
" اصل میں وہ ٹوئنز ہیں۔۔ ایک بیٹی ہے۔۔ اور ایک بیٹا! " وہ مسکراتے ہوئے کرسی  کھینچ کر بیٹھ گئے تھے۔۔۔" بہت بہادر ہے میری نواسی۔۔۔ بھائی کوساتھ ہی لائی ہے۔۔ " جانے کیا سوچ کر وہ مسکرائے۔۔ پھر انہوں نے تصویر نکال کر اسے دکھائی۔
"اس میں لڑکی کون ہے اور لڑکا کون ہے!؟ آئڈینٹیکل ٹوئنز نے فارس کو الجھا دیا۔۔دونوں کے کپڑے بھی ایک ہی جیسے سفید رنگ کے تھے۔
ڈاکٹر مصطفیٰ نے تصویر پکڑ کر دیکھی۔۔ پھر دوبارہ دیکھی۔۔۔ "اللہ جانے!! " بڑبڑا کر اٹھ گئے۔
اب وہ اس کے لیے فروٹ ٹرائفل بنا رہے تھے۔
فارس نے  تصویر اٹھا لی۔۔۔ نھنے منے سے بچے گہری نیند میں تھے۔وہ کافی دیر تک دلچسپی سے انہیں دیکھتا رہا۔ غالبا اتنے چھوٹے بچوں کو دیکھنے کا اتفاق اسے پہلی بار ہوا تھا۔
"اپنی ساری نواسیوں کے نام میں نے ہی رکھے ہیں۔۔ اب  میری بڑی نواسہ حفصہ  چاہ رہی ہے کہ اسکا نام بھی میں ہی رکھوں!" انہوں نے ایک لمحے کے لیے رک کر کچن کی کھڑکی سے باہر لان کی کیاریوں میں  پھولوں کو دیکھا۔۔پھر کچھ سوچا۔۔۔ "وردہ کیسا رہے گا!؟" اب وہ اپنے مہمان سے پوچھ رہے تھے جو پلیٹ سے دوسرا رول اٹھا رہا تھا۔۔۔
" وردہ۔۔یعنی پھول۔۔۔۔ بہار کے موسم میں آئی ہے وہ۔۔۔ہے بھی پھولوں جیسی!" ایک بار پھر تصویر پکڑ کر وہ  اپنی نواسی کو کھوجنے لگے۔۔  " یا پھر کوئی اور نام!!!!....."
"میں بتاوں؟!" اپنا رول کھاتے ہوئے فارس نے کہا۔ڈاکٹر مصطفیٰ اس کے "بسٹ فرینڈ" تھے۔۔۔ان کی مشکل آسان کرنا اسکا فرض تھا۔۔
"ہاں کیوں نہیں!"وہ خوش ہوئے۔ 
"آپ جنت رکھ دیں!"
ڈاکٹر مصطفیٰ نے چونک کر سر اٹھایا۔۔جنت!!؟
"مس ھادیہ نے اپنی بیٹی کا نام جنت رکھا ہے! پیارا نام ہے نا؟!" وہ کہہ رہا تھا۔ ڈاکٹر مصطفیٰ اس پر نگاہ جمائے بیٹھے رہ گئے تھے۔ ان کی توجہ کسی ایک پھول پر تھی۔۔۔مگر فارس انہیں لاعلمی میں کتنی  بڑی تصویر دکھا گیا تھا۔
وردہ۔۔ایک پھول۔۔۔۔اور جنت میں تو جیسے ہر طرح کے پھول سما جاتے ہیں۔۔۔۔انہوں نے سوچا۔
"واقعی بہت پیارا نام ہے! بس آج سے میری نواسی کا نام جنت ہے!"وہ  فارس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے مسکراتے ہوئے  اٹھ گئے۔
اس نے فروٹ ٹرائفل کھایا۔۔۔ ڈاکٹر مصطفیٰ کے ساتھ سبز چائے بھی پی۔۔ لان کے پھولوں کو پانی بھی دیا۔۔آسٹریلین طوطوں کو چوری بھی کھلائی۔۔۔ ڈرائنگ بوک میں رنگ بھی بھرے اور  بارش کی دعاء بھی کی۔۔۔۔۔۔
اور ٹھیک ایک گھنٹے بعد سہہ پہر کے غروب ہوتے سورج پر کالی گھٹاچھا گئی۔۔ ہوائیں تیز ہوئیں تو دور سے مٹی اور دھول اٹھتی ہوئی نظر آئی۔۔اوردیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف دھند چھا گئی۔۔۔ بارش کا پہلا قطرہ اس کے گال پر ہی گرا تھا۔۔۔ اس نے خوشگوار حیرت سے سر اٹھا کر آسمان کودیکھا۔۔ پھر ہاتھ پھیلائے سیڑھیاں اتر کر لان میں آ گیا۔۔۔
بادلوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ آسمان پر کہیں بجلی چمکی تھی۔۔۔ وہ رات کی بارشوں سے جتنا خائف ہوتا تھا ،دن کی بارشیں اسے اتنا ہی محظوظ کرتی تھیں۔۔۔ ڈاکٹر مصطفیٰ بھی اس کے ساتھ ہی رم جھم بارش انجوائے کرتے رہے اور جیسے ہی بارش نے زور پکڑا، وہ اسے ساتھ لیے اندر آ گئے۔۔۔۔
کافی عرصے بعد انہوں نے فارس کو بےانتہا خوش دیکھا۔۔۔ جو تصور ہی تصور میں نیلی سفید تھیم سے سجی کرسیوں کو فضا میں  ٹوٹتا بکھرتا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
" میں نے اللہ سے دعاء کی تھی  بارش ہو جائے!" اس نے اشتیاق  کے عالم میں ڈاکٹر مصطفیٰ کو بتایا تھا۔۔۔
"میں نے اللہ سے کہا بہت زور کی آندھی آئے!" اسنے ہاتھ بھی پھیلائے۔۔۔ اچھل کر بھی دکھایا۔۔۔ پیشانی پر بکھرے  بال آنکھوں پر گرے۔۔۔۔ ڈاکٹر مصطفیٰ نے اسکی آنکھوں میں عجیب سی خوشی دیکھی۔۔۔۔وہ مسکرائے۔۔۔
" تاکہ حماد  کے بھی سارے کھلونے ٹوٹ جائیں، اسکی پارٹی بھی خراب ہو جائے!"
ڈاکٹر مصطفیٰ کی مسکراہٹ یک لخت تھم گئی۔۔۔انہیں سکتہ ہوا۔ وہ تعجب سے فارس وجدان کودیکھ کر رہ گئے۔۔۔
حماد شیرازی۔۔۔ بزنس ٹائیکون اعظم شیرازی کا پوتا!!
" اچھے بچے کسی کا برا نہیں چاہتےا!" انہوں نے ٹوکا۔۔
" میں اچھا ہوں ہی نہیں!"  فارس نے بڑے آرام سے اعتراف کر لیا۔
وہ اسے دیکھ کر رہ گئے۔۔۔
" میں نے برا نہیں چاہا۔۔۔ میں نے بس یہ کہا کہ بارش ہو جائے اور آندھی بھی آئے۔۔۔۔" اب کے اس نے ذرا سی خفگی کے ساتھ انہیں وضاحت دی  تھی۔۔
ڈاکٹر مصطفیٰ اپنی مسکراہٹ ضبط کر گئے۔
" تم حماد کو ناپسند کرتے ہو!؟" کچھ سوچ کر انہوں نے پوچھا۔۔۔ 
" وہ مجھ ناپسند کرتا ہے!"
" تمہیں  ایسا کیوں لگا!؟"
" جب بھی اس کی ممی میرے پاس آتی ہیں تو اسے برا لگتا ہے، جب بھی وہ میرے لیے کچھ لیتی ہیں تو وہ مائنڈ کرتا ہے!"
ڈاکٹر مصطفیٰ اس کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گئے۔۔۔وہ براہ راست اب فارس کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔۔
" کچھ دن پہلے وہ میرے کمرے میں آیا تھا اور اس نے میری وہ ساری کارز توڑ دیں جو بلکل اس کے جیسی تھیں۔۔۔ اسے اچھا نہیں لگتا نا کہ اسکی جیسی چیز کسی اور کے پاس ہو! " سر جھکائے اب وہ شرٹ کے کناروں چھیڑ رہا تھا۔ " مجھے بھی اچھا نہیں لگتا کہ میرا سب کچھ کسی اور کے پاس ہو۔۔مگر میں تو کچھ  نہیں کہتا! "
ڈاکٹر مصطفیٰ جیسے اپنی جگہ منجمد ہوئے تھے۔۔۔
"ہے تو حیرت کی بات!  حماد بابو اس طرح کسی ملازم کے بیٹے کے ساتھ مقابلہ کرتا  ہے !" کام والی ماسی وہاں سے گزر رہی تھی،سنتے ہی بول پٹی۔ 
" میں ملازم کا بیٹا نہیں ہوں!" پوری قوت سے وہ اس عورت پر چیخ پڑا تھا۔۔۔ جہاں کام والی ماسی سکتے میں گئی تھی تو وہاں ڈاکٹر مصطفیٰ بھی اس کے رویے سے صدمے میں چلے گئے تھے۔۔
آنکھوں میں ، غصہ،نمی ،بےبسی لیے و اس طوفانی موسم میں  گھر چھوڑ کر جانے لگا۔۔ یہ توڈاکٹر مصطفیٰ ہی اسے زبردستی پکڑ کر واپس لائے۔۔کام والی ماسی سے معذرت بھی کروائی اور اسے کھانے کے لیے بھی رضا مند کیا۔۔۔۔
اور اس کے بعد وہ ایک بار پھر اس کے سامنے بیٹھے تھے۔۔ وہ شیرازی خاندان کے فیملی ڈاکٹر تھے اور آج سے قبل انہوں نے کبھی بھی ان کے خاندانی معاملات کی جانچ پڑتال نہیں کی تھی اور نہ ہی وہ ایسا کرنا پسند کرتے تھے۔۔مگر آج نہ جانے کیوں وہ فارس وجدان کے بارے میں اچھنبے کاشکار ہوئے تھے۔۔ ڈیڑھ سال پہلے یہ بچہ اچانک  سامنے آیا تھا۔۔۔۔ وہ اسے کئی بار اٹینڈ کر چکے تھے۔۔کئی بار وہ ان کے کلینک میں ایڈمٹ ہو چکا تھا۔ جمیلہ داؤد اس بچے کا بہت خیال رکھتی تھی وہ یہ بھی جانتے تھے۔ شیرازی مینشن میں ایک بار فارس کی بابت دریافت کرنے پر اعظم شیرازی نے  اسکا تعارف اپنے ملازم کے یتیم بیٹے کے طور پر کروایا تھا مگر اب۔۔۔۔۔۔
" تم کس کے بیٹے ہو!؟"  وہ اب پوچھ رہے تھے۔۔
" کسی کا بھی نہیں!" وہ ہنوز ناراض تھا۔
"ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کسی کے بھی بیٹے نہ ہوں!"
"ایسا ہی ہے کہ میں کسی کا بھی بیٹا نہیں ہوں!"
ڈاکٹر مصطفیٰ اسے دیکھ کر رہ گئے۔۔۔پھر جیسے انہیں مذاق سوجھا۔۔ " یعنی تم سیدھا آسمان سے گرے تھے!؟درخت پر اگے تھے!؟ "
اس نے بھنویں سکیڑ کر انہیں گھورا۔۔ وہ مذاق کے موڈ میں ہرگز نہیں تھا۔۔۔
اور تب کسی خیال کے تحت ڈاکٹر مصطفیٰ کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔۔
"کیا تم واقعی گھر میں سب  کو بتا کر آئے ہو!؟"
" مجھے نیند آ رہی ہے، میں سونا چاہتا ہوں!" وہ سر جھکائے اپنے  بیگ کی زیپ بند کرنے لگا۔۔
ڈاکٹر مصطفیٰ نے اسکا بیگ گود سے ہٹا کر نیچے رکھا ،  " جواب دو فارس!"
اس نے جواب نہیں دیا۔۔لب بھنچے انہیں دیکھتا رہا۔۔ بادل گرجے۔۔ بجلی کڑکی۔۔ پل بھر کے لیے براق روشنی نے کھڑکیوں سے جھانک کر اسے ڈرایا  مگر فارس نے جواب نہیں دیا۔۔۔
اور ڈاکٹر مصطفیٰ کو جیسے ان کے ہر سوال کا جواب مل گیا۔۔۔
" اس موسم میں تم گھر سے باہر ہو، بخدا اس وقت ان سب پر کیا بیت رہی ہو گی!"
مگر فارس بتا نہیں سکا کہ اس وقت ان سب پر کچھ بھی نہیں بیت رہی ہو گی۔۔ کیونکہ وہ سب تواس وقت گھر کے اندر اپنی خوشی منا  رہے ہونگے۔۔۔
ڈاکٹر مصطفیٰ  تیزی سے اٹھ کر فون کی طرف لپکے تھے۔۔۔ مگر موسم خرابی کی وجہ سے  سگنلزکا مسئلہ تھا۔۔ کال نہ ہوسکی۔۔  رسیور ہاتھ میں لیے انہوں نے خفگی سے فارس کودیکھا۔۔
", میں آج گھر نہیں جانا چاہتا!" اس کی آواز آنسوؤں سے رندھی ہوئی تھی۔۔۔ڈاکٹر مصطفیٰ گہرا تنفس لے کر رہ گئے تھے۔۔۔

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Where stories live. Discover now