اعظم شیرازی کی تنبیہہ کے باوجود وہ اگلے دن خود جا کر فارس کے لیے بےشمار کھلونے اور کپڑے خرید لائی تھی۔۔نئے فرنیچر کے ساتھ اس نے پورے کمرے کو بھی اپنی نگرانی میں سیٹ کروایا تھا۔ اس دوران وہ سامنے کونے میں کھڑا ٹکر ٹکر کر اسے دیکھتا رہا تھا۔
کھلونوں کا ایک ڈھیر تھا جو اس کے سامنے رکھا تھا ۔۔نئے کپڑے۔۔ سکول بیگ۔۔۔ کلرنگ بوکس، سٹوری بوکس۔۔۔ بےشمار پنسلیں، کلرز۔۔۔۔ ایک رائٹنگ ٹیبل جسے سٹیکرز سے جمیلہ خود ہی سجانے میں لگی ہوئی تھی۔
کمرے میں حقیقی رنگ تو بکھر ہی گئے تھے مگر اس کی آنکھوں میں زندگی کا کوئی رنگ ابھی بھی نہیں ابھرا تھا۔ وہ اب بھی کھنچا کھنچا سا۔۔۔ اجنبی نگاہوں سے کبھی جمیلہ اور کبھی ملازموں کے تکتا الماری کے ساتھ کونے میں ہی سمٹ کر بیٹھا رہا تھا۔۔۔ اجنبی چہرے اسے وحشت میں مبتلا کرتے تھے۔۔ ان جانا سا خوف بڑھتا تھا تو اس کے چہرے کا رنگ اڑ جاتا تھا۔۔۔
" کھانا لگا دوں جی!؟" مدحت نے جمیلہ سے مدد چاہی تھی۔۔ چھوٹے سے ریکس میں کتابیں سیٹ کرتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
اس دن فارس نے دوسری بار اس کے ہاتھ سے بہت سکون اور تسلی سے کھانا کھایا تھا۔۔کھاناکھاتے ہوئے وہ کئی بار سر اٹھا کر اسے دیکھ چکا تھا۔جمیلہ مسکرا دیتی مگر اس کے چہرے پر مسکراہٹ کا کوئی ایک رنگ بھی نہ کھلتا۔
اگلے دن وہ اس کے سکول بھی گئی۔۔ پرنسپل کے ساتھ ساتھ کلاس ٹیچر سے بھی ملی۔۔۔ کلاس روم کا بھی جائزہ لیا۔۔ پھر اس نے فارس کی حالت کے پیش نظر اس کے لیے جگہ کاانتخاب خود کیا۔۔۔اتنے سارے بچوں میں اس نے ایک گپلو اور بہت زیادہ باتونی بچے کو اس کے برابر بٹھایا۔۔ وہ فرینڈلی قسم کا تھا۔۔ ! لمحوں میں دوست بنا کر باتیں کرنا لگتا تھا۔۔ کھڑے کھڑے اس نے جمیلہ سے بھی دوستی کر لی تھی اور چاکلیٹ لے کر ہی ٹلا تھا۔۔۔
" یور ممی از سو پریٹی!!" چاکلیٹ کا ریپر اتارتے ہوئے اس نے فارس کو بتایا تھا ۔ جو اب جمیلہ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔جانے سے پہلے ہاتھ ہلا کر وہ ایک بار پھر مسکرائی تھی۔۔۔ شاید اب وہ بھی مسکرائے۔۔شاید اب کے وہ اپنے احساسات کا اظہار کرے۔ مگر فارس کے لب باہم پیوست ہی رہے تھے۔۔چہرہ ہر تاثر سے عاری تھا۔۔
مسکرانا، ہنسنا، باتیں کرنا تو وہ جیسے بھول ہی گیا تھا۔۔۔ کچھ وقت درکار تھا اسے سب کچھ نئے سرے سے ، نئے انداز میں اور نئے لوگوں سے سیکھنے کے لیے۔۔۔۔۔★★★★★★★★★
باپ اور بیٹے کی اس جنگ میں نقصان فارس کا ہو رہا تھا۔۔ چھے سال کا وہ بچہ ان چند ہفتوں میں کلملا کر رہ گیا تھا۔۔ نفسیاتی طور پر اتنا ڈسٹرب تھا کہ اس نے بول چال بھی بند کر دی تھی۔۔ کھانا وہ بمشکل کھاتا تھا اور سکول میں بھی کوئی خاطر خواہ کارگردگی نہیں دکھا رہا تھا۔۔۔
تھک ہار کر جمیلہ نے آرزو جہانگیر کو ڈھونڈا تھا۔ بہت مشکلوں سے ملی تھی وہ۔۔۔ بہت صعوبتوں سے ملاقات ہو پائی تھی۔۔۔۔
"میں شادی کر رہی ہوں!"
فارس سے متعلق ساری بات سن لینے کے بعد آرزو جہانگیر نے کہا بھی تو بس یہی۔۔۔۔۔ کوئی فکر۔۔ پریشانی۔۔۔اندیشہ۔۔۔ ایسا کوئی بھی تو تاثر نہیں تھا اس کے چہرے پر۔۔جمیلہ کو دکھ ہوا۔ کیا وہ "ماں" تھی۔۔۔ کیا وہ واقعی میں "فارس" کی ماں تھی !؟
گھنگھرایالے سنہرے بالوں کو کیچر میں جکڑے۔۔ جینزپر مونگیائی رنگ کی سٹائلش شرٹ میں ملبوس وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے، ہیل میں مقید داہنے پیر کو جنبش دیتی بہت مطمئن اور پرسکون بیٹھی لائم جوس سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔۔۔
" میں تم سے تمھارے بیٹے کی بات کر رہی ہوں!" اس نے کہا۔
" کیا وہ صرف وہ میرا بیٹا ہے!" اپنی دودھیائی کہنیاں میز پر ٹکائے وہ کچھ آگے ہوئی تھی۔۔
"ویسے تم کیوں میرے بیٹے کے غم میں اتنا ہلکان ہو رہی ہو!؟ تمھارے بیٹے کی جگہ نہ لے لے اس لیے!؟"
" پہلے مسٹر شیرازی تمھارے بیٹے کو قبول تو کر لیں!" انتہائی برودت سے جمیلہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا۔۔
"اوہ کم آن !" وہ ہنس دی۔۔ "سب جانتا ہے وہ بلڈی اولڈ مین!! " غصے اور حقارت سے اعظم شیرازی کا نام لیتے ہوئے اس نے پھر جمیلہ کو دیکھا۔۔" میں تمھاری ان باتوں پر یقین کرنے والی نہیں ہوں۔ اور اگر یہ حقیقت ہے بھی ، تب بھی یہ میرا درد سر نہیں ہے۔ھارون نے سیپریشن کے وقت اسے اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔سو پلیز اگر کوئی بات تمہیں کرنی بھی ہے تو ڈائریکٹ ہارون سے کرو! مجھے ان سب میں مت گھسیٹو! "
اپنا ہینڈ بیگ شولڈر پر ڈالتے ہوئے وہ جانے کے لیے اٹھ گئی تھی۔۔اور جمیلہ کتنی ہی دیر تک اپنی جگہ بیٹھی رہی تھی۔۔
پہلے ھارون کے رویے نے اسے مخمصے میں ڈالا تھا۔۔ اب آرزو جہانگیر کا رویہ اسے ورطہ حیرت میں ڈال رہا تھا۔۔ اسکا خیال تھا فارس کے بارے میں جاننے کے بعد آرزو اسے یہاں سے لے جائے گی مگر وہ تو جیسے جمیلہ پر اپنا موقف واضح کرنے آئی تھی۔۔۔
آرزو سے ملاقات کے بعد اگلے کئی دنوں تک اسکا زہن الجھا رہا۔۔ ایک دو بار اس نے اعظم شیرازی کا دل فارس کے لیے نرم کرنے کی کوشش بھی کی مگر ہر بار وہ نام سن کر بھی یوں بدک اٹھتے جیسے جمیلہ نے ان کے پوتے کا نہیں کسی دشمن کا نام لے لیا ہو۔۔۔ دوسری طرف ھارون یوں خاموش ہو جاتا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔۔۔۔
اور تب ہی اس نے ایک فیصلہ کر لیا۔۔
اگر وہ شیرازی مینشن میں نہیں بھی رہتا، تب بھی وہ اتنا بھی دور نہیں کہ جمیلہ کی محبت، توجہ اور اھتمام سے محروم رہ سکے۔۔۔مسئلہ ان باپ بیٹے کے درمیان ہے ۔۔ اس کے اور فارس کے درمیان تو نہیں۔۔ سارے وعدے، قاعدے ھارون سے جڑے ہیں۔۔۔ اس کے ساتھ تو ہرگز نہیں۔۔
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...