بہترین انتظامات کے ساتھ خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیے گئے شادی ہال کے صدر دروازے پر، مہمانوں کا خوش اخلاقی سے استقبال کرتی سائرہ خالہ کی نظر جنت پر پڑی تو وہ حیران رہ گئیں۔ ایک لحظے کے لیے تو جیسے انہیں یقین ہی نہ آیا، اگلے ہی لمحے انہوں نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا تھا۔
فارس وجدان نے موبائل کی سکرین سے نگاہ اٹھا کر سائرہ خالہ کو دیکھا. لبوں پر داہنے گال کی جانب اٹھتی مدھم مسکان کے ساتھ وہ جنت کے خالو سے اور ان کے بیٹوں سے ملا۔ عمار کے علاوہ سائرہ خالہ کے تینوں بیٹے خوش اخلاقی سے ملے۔
نیوی بلیو پینٹ کوٹ میں فارس کا دراز قد نمایاں ہو رہا تھا۔ اپنی شخصیت میں شاندار تو وہ تھا ہی مگر وجاہت کے باعث ہر کسی کی نظروں میں بھی آ رہا تھا۔
سفید اور گلابی رنگ کے امتزاج کے کامدار لہنگہ چولی میں ملبوس، جنت بنت کمال سب کچھ لگ رہی تھی مگر خوش نہیں۔ زبردستی کی مسکراہٹ بھی اس کے ہونٹوں پر نہیں تھی۔آنکھیں، سرخ متورم.. جیسے وہ ساراراستہ روتی رہی ہو۔۔وہ جتنی اپ سیٹ تھی۔فارس وجدان اتنا ہی خوش اور مطمئن!
" تم اندر جاو میں ضروری کال اٹینڈ کر کے آتا ہوں!"
جنت نے متوحش نگاہوں سے اسے دیکھا..اب اندر بھی وہ اکیلی جائے؟ پھر اس نے خالہ کو دیکھا جو دوسرے مہمانوں سے مل رہی تھیں۔عمار قدرے فاصلے پر ہی بگڑے تیوروں کے ساتھ کھڑا تھا۔
" میں۔۔۔۔ میں تمہارا یہیں انتظار کر لیتی ہوں!"
" کوئی ضرورت نہیں!" آنکھوں میں سختی سے دیکھتے ہوئے اس نے کہا... پھر قدرے فاصلے پر، شادی کے ہنگامے ، شور شرابے اور میوزک کی تیز آواز سے پرے وہ فون کان سے لگائے کسی سے بات کرنے لگا..مٹھیاں بھینچ کر جنت نے جیسے اپنی گھبراہٹ پر قابو پایا پھر ہمت مجتمع کر کے ھال میں داخل ہو گئی۔
شادی کا شور شرابہ، ہنگامہ سب جیسے ختم ہوا تھا۔ یا شاید اس کی سماعت نے ہی کام چھوڑ دیا تھا کہ آہستگی سے قدم اتھاتے ہوئے اسے یوں لگا تھا جیسے ہر طرف مهیب سناٹا چھا گیا ہو... کئی نگاہیں اس کی طرف اٹھی تھیں، کئی لوگوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے دئیے تھے۔
آتے جاتے لوگوں کی مرکز نگاہ بنی، اذیت کی دھاری تلوار پر قدم جمائے وہ شادی ہال کے سب سے الگ تھلگ حصے میں جا کر بیٹھ گئی تھی۔
جن لوگوں کے سامنے وہ مر کر بھی نہیں آنا چاہتی تھی وہ اب نظر بھر کر اسے دیکھ رہے تھے۔ اسے جانچ رہے تھے۔ اسے پرکھ رہے تھے۔
بدنصیبی کا اگر کوئی روپ ہے تو وہ جنت کمال کو دان کر دیا گیا ہے۔ بدبختی اگر کوئی مقام ہے تو وہ جنت کمال کو انعام کر دیا گیا ہے۔
اس کا سر اٹھا ہوا تھا مگر نگاہیں جھکی ہوئی تھیں۔وہ کسی کو دیکھنا نہ چاہتی تھی مگر پھر بھی سب اسے نظر آ رہے تھے بہنوں کو وہ نظرانداز نہیں کر سکی تھی۔خصوصاً حفصہ آپی کو.... وہ انہیں اٹھتے بیٹھتے ، آتے جاتے دیکھ رہی تھی..اور وہ تھیں کہ اسے مکمل طور پر نظرانداز کیے ہوئے تھیں۔
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...