عسریسرا از حسنیٰ حسین
دسویں قسط:★★★★★★★★
★★★★★★★★★
اسکا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ رو رو کر آنکھیں سوج گئی تھیں۔ ٹانگیں دکھ رہی تھیں۔ ہاتھ کانپ رہے تھے...دماغ ماؤف تھا۔حواس شل ہو رہے تھے۔وہ ایک بار پھر اٹھ کر آگے بڑھی۔ آنسو گالوں سے لڑھک رہے تھے۔ دل کانپ رہا تھا۔فکر اور اندیشوں نے از سر نو گھیرا تھا۔صدمہ تھا، دکھ تھا۔ اذیت تھی۔وہ جیسے ایک بار پھر دھوکے میں آئی تھی۔
جو انسان اسکی زندگی کو جہنم بنا سکتا تھا۔اسے اذیتوں کے دوراہے پر لا سکتا تھا۔ اسے پارکنگ ایریا میں چھوڑ کر جا سکتا تھا۔اس پر اپنی شرائط ،اپنی مرضی ،اپنے ارادے سزاء کی طرح مسلط کر سکتا تھا وہ اس انسان پر کیسے بھروسہ کر سکتی تھی؟کیسے؟؟ یہ غلطی یہ بھول اس سے کیونکر ہو گئی تھی؟
اسکا خیال تھا وہ اپنے بچے کی وجہ سے اب اسکا لحاظ کرے گا ۔یہ خیال محض اک خیال ہی تھا۔ خوش فہمی کا ایک طلسم۔۔جو ٹوٹ کر اسے لہو لہان کر گیا تھا۔یہاں مسز شیرازی نہیں تھیں۔ یہاں فارس وجدان ایک بار پھر اپنی اصلی ہیئت میں آ گیا تھا۔
اسے لندن آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ سسکتے ہوئے خود کو کوسا۔ "بلکل نہیں آنا چاہیے تھا۔"
وہ بھٹکتی ہوئی کبھی اس سمت جا رہی تھی۔۔اور کبھی اس سمت۔۔۔رو رو کر اپنا حشر بگاڑ لیا تھا۔ بریک لین کا وہ راستہ زندگی کی طرح ہو گیا تھا۔ کوئی منزل نہیں تھی بس اک خلا رہ گیا تھا۔وہی لوگ۔۔وہی آنکھیں۔۔وہی دہشت۔۔تنہائی۔۔خوف۔۔۔
اتنے شور اور اتنی ساری آوازوں میں یکایک ایک مانوس سی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی۔ اسے لگا اسکے کان بج رہے ہیں۔ خوف کے عالم میں رک کر پیچھے دیکھا۔اسے اپنا نام ایک بار پھر سنائی دیا۔
اس نے بےاختیار گھوم کر چاروں طرف دیکھا۔آنسو بہہ رہے تھے تو ہر منظر دھندلا ہو رہا تھا۔ اور تب اسکی نظر فارس وجدان پر پڑی۔
وہ لوگوں کو چیرتا ہوا اسکی طرف آ رہا تھا۔اس نے بےساختہ فارس کی طرف قدم اٹھائے۔ لمحے بھر کے لیے لڑکھڑائی۔ ایک دو لوگوں سے کندھا مس ہوا، دھکا بھی لگا۔
وہ اتنے دکھ ،اتنے صدمے اور غصے میں تھی کہ اسے فارس کی آنکھوں میں اپنے لیے فکر ،پریشانی اور خوف نظر ہی نہ آیا۔
وہ اسکے قریب پہنچا تو بغیر کچھ سوچے ، بغیر کچھ سمجھے ، اس نے سینے پر مارنا شروع کر دیا۔ آس پاس کے لوگ رک کر ،مڑ کر انہیں دیکھنے لگے تھے۔
" میں نے کہا تھا۔۔۔ میں نے کہا تھا میرے ساتھ کوئی ڈراما مت کرنا۔۔۔۔ "وہ روتے ہوئے اس پر چلائی۔۔ " میں نے منع کیا تھا میرے۔۔ساتھ۔۔۔اس طرح مت کرنا۔۔"وہ اتنی مشتعل تھی،اس قدر دکھ اور غصے میں تھی کہ خود پر اختیار کھو بیٹھی تھی۔دو گھٹنے وہ اس شدید سردی میں بھٹک رہی تھی۔۔ دو گھنٹے ایک سزاء کے نام ہو گئے تھے۔۔۔۔۔
زخم پھر سے ادھڑ گئے،سارے غم تازہ ہو گئے، ساری اذیتیں جاگ اٹھیں۔ بچپن سے لے کر اب تک سہے جانے والا ہر دکھ رگ رگ میں اتر گیا۔دماغ کی سرنگوں میں وحشت پھیل گئی۔
روتے کرلاتے۔غصہ دکھاتے وہ جتنا لڑ سکتی تھی وہ لڑی، جتنا مار سکتی تھی ،اس نے مارا۔
وہ اسے سنبھالنا چاہ رہا تھا مگر وہ اسکے قابو میں نہیں آ رہی تھی۔وہ اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔ اسکی نہیں سن رہی تھی۔ کچھ بےدردی اور غصے سے اسکے ہاتھ جھٹک کر وہ پیچھے ہٹنا چاہ رہی تھی مگر فارس نے اسے ایسا کرنے نہیں دیا تھا۔ وہ سڑک کے بیچوں بیچ اسکے مضبوط بازوؤں کے حصار میں مقید ہو گئی تھی۔
اب وہ اسے نہیں مار سکتی تھی۔اب وہ صرف رو سکتی تھی۔اور وہ رو رہی تھی۔وہ اپنے نانا کو پکارتے ہوئے بچوں کی طرح رو رہی تھی۔
"آئم سوری!آئم سو سوری!!" اپنے آپ میں چھپائے بھاری دل سے کہا۔ وہ آواز صرف لبوں کی جنبش تھی۔ جنت کمال تک نہیں پہنچی تھی۔اسکا وجود فارس کے بازوؤں میں بےجان ہو گیا تھا۔
★★★★★★★★★
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...