Chapter:18

325 30 4
                                    

اس کی زندگی کی دھندلی تصویروں میں  کچھ اجنبی شناسا چہرے تھے۔شناسا اس لیے کہ خونی رشتے تھے۔ اور اجنبی اس لیے کہ اسکی پہچان نہیں رکھتے تھے۔امی۔۔۔ابو۔۔۔ اور حسنین،۔۔۔۔  زندگی ان تین لوگوں سے جڑی تھی۔مگر ان تینوں سے کٹ کر بھی ختم نہیں ہوئی تھی۔
حسنین اسکا جڑواں بھائی تھا۔چھے بہنوں کے بعد اس کے ساتھ پیدا ہونے والا کمال جنید کا اکلوتا بیٹا!! جس کی پیدائش سے نفیسہ اور کمال جنید کی زندگی میں بہاریں اتر آئی  تھیں۔ہر وقت طعنے اور کوسنے دینے والی دادی کے رویے میں مٹھاس گھل گئی تھی ۔ طرح طرح کی باتین بنانے والے اپنوں اور غیروں کے منہ بھی بند ہو گئے تھے۔ نفیسہ  مطمئن تھیں کہ اب دوسری شادی کاموضوع زیر بحث نہیں لایا جائے گا۔نہ بیٹیوں کے طعنے دئیے جائیں گے۔نہ  کمتر سمجھا جائے گا کہ اب وہ ایک بیٹے کی ماں تھیں۔اور سات بیٹیوں کے بعد ایک بیٹے کی ماں ہونا کوئی چھوٹی بات ہرگز نہیں تھی۔
انہیں اب صرف حسنین یاد تھا۔خیال تھا بھی تو صرف اسکا۔۔۔۔اور جنت وہاں کہاں تھی!؟ شاید کہیں بھی نہیں!!نفیسہ کو تو یاد بھی نہیں رہا تھا کہ انہوں نے حسنین کے ساتھ ایک بیٹی کو بھی جنم دیا ہے۔۔۔جنت تو جیسے وہاں تھی ہی نہیں۔۔۔ عدم۔۔نظروں سے اوجھل۔۔۔
حسنین کا نام تو اسی وقت رکھ دیا گیا تھا مگر وہ اپنے وجود کی طرح کتنے ہی دنوں تک بےنام رہی تھی۔ یہ تو نانا تھے جن کی توجہ اس پر پڑی تھی۔ نام بھی انہوں نے خود رکھا تھا اور جانے کیا سوچ کر۔۔ کیاسمجھ کر وہ اسکی بڑی بہن حفصہ کو خاص طور پر تاکید کر کے گئے تھے کہ وہ اسکا خیال رکھے۔۔ ۔۔۔ صدا کی شکر گزار ،صبر کرنے والی خاموش طبع حفصہ نے یہ بات جیسے اپنی گرہ سے باندھ لی۔۔۔ وہ جنت کے لیے "ماں" ہو گئی۔۔۔۔
دودھ اس نے فیڈر کا ہی پیا تھا کہ نفیسہ نےاپنا دودھ پلانے سے انکار کر دیا تھا۔۔ حسنین کے بعد نہ انہیں اپنا کوئی ہوش رہا تھا نہ گھر کے کسی فرد کا خیال رہا تھا اور جنت تو پھر نھنی بچی تھی۔جس کی موجودگی کا احساس بھی اس کے رونے کی آواز سے ہوتا تھا۔
زندگی کے ابتدائی پانچ سال اس نے بےفکری کے عالم میں حفصہ کی سنگت میں گزارے تھے۔ان پانچ سالوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ماں باپ یا دادی میں سے کسی نے اسے پیار کیا ہو۔یا بلا کر اپنے پاس بٹھایا ہو۔کچھ کہا ہو۔۔یا پھر سنا ہی دیا ہو۔گھر کی ان تین ہستیوں کی زندگی تو جیسے حسنین سے شروع ہو کر حسنین پر ہی ختم تھی۔۔۔۔
لیکن وہ حساس تھی۔۔بلا کی سمجھدار بھی۔۔۔۔۔حسنین کو ہر وقت ماں کے ساتھ دیکھتی تو اسکا بھی دل چاہتا کہ  وہ اسے بھی بلائیں۔۔۔ اسے بھی پیار کریں۔۔ اس کے لیے بھی قیمتی کپڑے خریدیں اور ڈھیر سارے کھلونوں کا انبار لگا دیں۔ بچی تھی۔ناسمجھ تھی۔یہ نہیں جانتی تھی کہ  جب یہ خواہشات اس کی دوسری بہنوں کی پوری نہیں ہوئی تھیں تو اس کی کیسے ہو جاتیں!؟
احساس کمتری میں گھری کمال جنید کی سبھی بیٹیاں عدم توجہی کا شکار تھیں۔ماں ایک عورت ہوتے ہوئے بھی ان کا درد،انکی اذیت، ان کی شخصیت کے خلاء کو پر کرنے سے قاصر! شاید پندرہ سالوں کی زہنی اذیت نے انہیں بھی نارمل نہیں چھوڑا تھا۔شاید لوگوں کی زبانوں نے ان سے انکا "احساس" بھی چھینا تھا۔وہ بس اب ایک بیٹے کی ماں تھیں۔۔۔ایک بیٹے کی ماں ہی رہنا چاہتی تھیں۔۔
جب حفصہ  کی شادی ہوئی  تو اسکی عمر  چھے سال تھی۔ہنسی خوشی نئے کپڑوں میں اس نے ہر تقریب میں دلہن بنی حفصہ کی گود معمول کی طرح سنبھالے رکھی تھی۔ لیکن جب رخصتی کا وقت آیا تو اس پر یکایک ہی انکشاف ہوا کہ وہ اسے چھوڑ کر جا رہی ہیں۔۔
۔۔بہت شور مچایا تھا اس نے۔ بہت روئی اور چلائی تھی وہ۔دلہن بنی حفصہ کے سینے سے چمٹی اس سے جدا ہونے کو بھی تیار نہ تھی۔۔۔ اس کی بہنوں نے ہی اسے بمشکل حفصہ سے الگ کیا تھا ۔ اسے جھوٹے تسلیاں دلاسے دئیے گئے تھے۔۔ اسے بتایا گیا تھا وہ ابھی جا رہی ہیں کل آ جائیں گی لیکن وہ پھر کبھی نہیں آئی تھیں۔۔۔
حفصہ کے جانے کے بعد اسے احساس ہوا وہ بھری دنیا میں بلکل تنہا رہ گئی ہے۔ان کی جدائی سے پیدا ہونے والے اس خلاء نے جنت کی شخصیت میں عجیب سے رنگ بھر دئیے تھے۔۔۔ اب ایمان اسے اپنی ذمہ داری سمجھ کر سنبھال رہی تھی مگر وہ پھر بھی اسکا اسطرح سے خیال نہیں رکھتی تھی جیسے کہ حفصہ رکھا کرتی تھی۔۔۔
اس کے معاملے میں بس یہی ضروری سمجھا جاتا کہ اسے وقت پر کھلا پلا دیا جاتا۔۔نہلا دھلا کر کپڑے بدل دئیے جاتے۔۔ہوم ورک کروا دیا جاتا۔مگر اسے تو محبت و اھتمام(care) کی ضرورت تھی۔ ایمان تو اسے اپنے ساتھ سلاتی بھی نہیں تھی کہ اس طرح اسے نیند نہیں آتی تھی جبکہ اسے حفصہ کے سینے سے لگ کر سونے کی عادت تھی۔
جب سے حفصہ کی شادی ہوئی تھی  وہ گهر کے ایک ایک فرد میں اسے تلاشتی پهر رہی تهی..مگر نہ اس کے جیسا کسی کا رویہ تھا۔۔نہ اسکے جیسی کسی کی محبت تھی۔۔۔
فون پر اس سے بات ہوتی تو رو رو کر اسے واپس آنے کا کہتی اور وہ ڈهیر سارے کهلونوں کا وعدہ کر کے اسکا دل بہلانے کی کوشش کرتیں۔۔ دوسرے شہر میں تھیں۔۔ جلد آ بھی نہ سکتی تھیں۔۔ دوسری بہنوں سے، خاص طور پر ماں سے بهی کہتیں وہ حسنین کی طرح اسے بهی کچھ وقت دیں... مگر ہمیشہ کی طرح کوئی بھی  اس بات کو خاطر میں نہیں لاتا تها...
                                                ★★★★★★★★

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Where stories live. Discover now