★★★★★★★★
نیند سے بیدار ہوتے ہی اس نے کمرے کی تمام کھڑکیاں کھول دی تھیں۔ باہر کا نظارہ کرتے ہوئے انگڑائی لی۔پھر کپڑے نکال کر واش روم میں گھس گئی۔ شاور لے کپڑے بدلے۔ بال خشک کر کے پونی بنائی۔دوپٹہ لیا اور نکھری سی باہر آ گئی۔
کچن میں معمول کی طرح ناشتے کا انتظام ہو رہا تھا۔ مسز شیرازی کیئر ٹیکر کے ہمراہ لاونج میں بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھیں۔ وہ پہلے ان کے پاس گئی۔۔ان سے ملنے کے بعد کچن میں جا کر ناشتے کے انتظامات کا جائزہ لیا۔۔۔ نگاہیں پھر بھٹکتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف گئیں۔ کلائی موڑ کر وقت دیکھا۔ ساڑھے سات بج رہے تھے اور وہ ابھی تک نیچے نہیں آیا تھا۔ کہیں اس کی وہ دعاء قبول تو نہیں ہو گئی کہ صبح سات بجے سے پہلے پہلے اسے آفس جانا پڑ جائے؟؟ نچلا دانتوں تلے دیا۔
اور پھر خود کو ہر لحاظ سے کمپوز کرتی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
کہہ دوں گی آنٹی نے بھیجا ہے جاؤ دیکھو۔۔میرا بیٹا ابھی تک نیچے کیوں نہیں آیا!!
آہستگی سے دستک دے کر بیڈ روم کا دروازہ کھولا مگر اندر کوئی نہ تھا۔ بیڈ پر کوئی شکن نہ تھی، تکیے بھی ترتیب سے رکھے تھے،کمفرٹر بھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔
رک کر راہداری میں نگاہ دوڑائی۔ سیٹنگ ایریا میں بھی کوئی نہیں تھا۔ اسکے قدم بےاختیار سٹڈی روم کی طرف اٹھے، ادھ کھلے دروازے کو آہستگی سے اندر دھکیلا تو وہ اسے سامنے ہی کاوچ پر سویا ہوا دکھائی دیا۔ لمحے بھر کے لیے تو جیسے اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ دروازے کے ہینڈل پر گرفت جمائے کتنی ہی دیر تک کھڑی رہ گئی۔
لیپ ٹاپ ،موبائل،کچھ فائلز اور کاغزات قالین اور شیشے کی میز پر دھرے تھے۔ پانی کا گلاس بھی رکھا تھا۔کافی کا خالی مگ بھی۔۔۔۔
کیا وہ ساری رات اسٹڈی میں سویا رہا؟ وہ کچھ دیر تک اپنی جگہ کھڑی رہی۔قریب آ کر اسے دیکھا۔ پھر آواز دیتے ہوئے کندھا ہلایا تو اسکی آنکھ کھل گئی۔ کھڑکیوں سے دھوپ سیدھا چہرے پر پڑ رہی تھی تو مندی مندی آنکھوں کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ حواس بیدار ہوئے تو اسٹڈی میں اپنی موجودگی کا احساس کر کے سیدھا ہوا۔تاثرات ایک دم سے بدلے۔ غالبا اسے توقع نہیں تھی وہ اوپر آئے گی۔۔
"تم۔۔۔"اسکی آنکھیں رتجگے کی گواہی دے رہی تھی ۔
"ہاں وہ۔۔۔ تم نیچے نہیں آئے تو آنٹی نے بھیجا۔۔۔"
وہ ہتھیلیوں پر سر گرائے کچھ دیر تک بیٹھا رہا۔
"تم یہیں سوئے رہے۔۔۔"
" کام کرتے آنکھ لگ گئی۔۔۔"وہ داہنے ہاتھ سے پیشانی مسل رہا تھا۔ آنکھیں ہنوز بند تھیں۔ دو دن پہلے جب وہ آفس میں سو گیا تھا تو اس نے تب بھی مسز شیرازی کو یہی جواب دیا تھا۔
وہ نچلا لب دانتوں میں دیئے کھڑی رہی۔ پھر گلاس میں پانی ڈال کراسے دیا۔
"تم چلو میں فریش ہو کر آتا ہوں!" اس نے کہا۔
سر ہلا کر اسٹڈی سے چلی گئی۔ناشتے کے دوران اسکا رویہ ٹھیک رہا۔ ورک آؤٹ کرواتے ہوئے بھی۔۔بس فرق یہ تھا وہ آج اسے کم ڈانٹ رہا تھا۔۔۔زیادہ بات بھی نہیں کر رہا تھا۔ زہن کچھ الجھا ہوا سا تگا۔۔۔کہ جب وہ بات کر لیتی تو وہ چونک کر پوچھتا وہ کیا کہہ رہی تھی۔۔۔ آفس کے لیے روانہ ہوا تو وہ گلاس والز کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔اور کافی دیر تک کھڑی ہی رہی۔۔۔
★★★★★★★
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...