chapter:33

263 25 3
                                    

★★★★★★★★

سنو تم لوٹ آؤ نا
کہ دل ہے درد سے بوجھل
سکوں  ایک پل نہیں ملتا
کہیں بھی دل نہیں لگتا
سنو!! سنسان ہوں تم بن
بہت ویران ہوں تم بن
مجھے سانسیں نہیں آتیں
کہ میں بےجان ہوں تم بن
سنو!بکھرا ہوا ہوں میں
سہارا چاہتا ہوں اب
تمھارے لوٹ آنے کا
اشارہ چاہتا ہوں اب
بھنور میں ہوں بہت دن سے
کنارہ چاہتا ہوں اب
سنو! تم لوٹ آؤنا
کہ مجھ پر ہجر طاری ہے
عجب بےاختیاری ہے
نہیں طلب کسی شئے کی
طلب اک بس تمہاری ہے
سنو !!
تم بن نہیں رہنا
دکھوں کو اب نہیں سہنا
یہ خالی ہاتھ ہیں میرے
تم ان میں پیار بھردو نا
میری تکمیل تم سے ہے
مجھے تکمیل کر دو نا
سنو تم لوٹ آؤ نا
سنو تم لوٹ آؤ نا

                         ★★★★★★★★

اقصیٰ نے بھاگم بھاگ گاڑی کا دروازہ کھولا۔ ہینڈ بیگ اندر پھینکا،
عدیل احمد اپنی جگہ ذرا محتاط سا کھڑا تھا۔چونک کر اسے دیکھنے لگا۔
اتنا بڑا سیاہ چشمہ زرد ،سبز اور سرخ رنگوں کے امتزاج کے اس کپڑوں والی کی ناک سے بار بار پھسلا جا رہا تھا۔ تیاری سے لگ رہا تھا کہیں شادی پر انوائیٹڈ ہے مگر انداز خاصے تباہ کن تھے۔نہ ہیل کی پرواہ تھی، نہ چوڑیوں کی،نہ اتنے لمبی ایرنگز کی۔ اور چمکارے دار دوپٹے کی چمک اور ستارے تو مرکزی دروازے سے یہاں تک بکھرے نظر آ رہے تھے۔ اتنا کچھ تو وہ گاڑی کی ڈگی میں رکھ چکی تھی اور ابھی بھی اسکا سامان ختم نہیں ہو رہا تھا۔ حالانکہ مسز شیرازی نے کہا تھا انہیں تو بس دوسرے شہر تک ہی جانا ہے۔ چند گھنٹوں کے لیے۔۔۔اور پھر واپسی۔۔۔بس اتنا ہی! باس کی طرف سے بھی یہی آرڈر ملا تھا۔
اور اس نے پتہ نہیں کتنے رسالے,میگزین٫کتابیں, ہینڈ بیگز اور جانے کیا کچھ اندر رکھ ڈالا تھا۔
"آپ کی تعریف؟"رنگوں کی فیکٹری اب کے سامنے سے گزری تو اس سے رہا نہیں گیا۔
کوئی تیسری بار گاڑی کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی چند ایک تصویریں لینے کے بعد اقصیٰ سیدھی ہوئی اورناک پر پھسلتی عینک کو ذرا نیچے کر کے اس نے موصوف کو سرتاپیر دیکھا۔ سوٹڈ بوٹڈ نوجوان۔ بال خاصے گھنگریالے تھے۔ناک ذرا سی لمبی تھی۔قد کاٹھ بھی مناسب تھا ۔فرنچ کٹ داڑھی میں بلا کا صوبر اور سنجیدہ نظر آنے کی کوشش کرتا وہ اسے ایک آنکھ نہ بھایا۔
"مستقبل قریب کی ڈاکٹر اقصیٰ! اور جنت آپی کی حالیہ مینیجر!!" اترا کر اپنا تعارف کرایا۔کہ اگر وہ فارس وجدان کا خاص ایمپلائے ہو سکتا ہے تو اسکی پوزیشن بھی شیرازی خاندان میں کم نہیں!
"آپ کو اتنا سامان گاڑی میں رکھنے کی اجازت کس نے دی ہے؟"
"کیوں یہ گاڑی آپ کی ہے!" بڑی بڑی گول شیشوں والی عینک کو واپس آنکھوں پر جما کر پوچھا۔وہ لاجواب ہوا۔ہیل پر ڈولتی ہوئی  وہ ایک بار پھر کوارٹر کا رخ کر چکی تھی۔ عبدالغور مالی دروازے میں کھڑے تھا۔ سر پر ہاتھ رکھے کچھ کہہ رہا تھا اور وہ کبھی اثبات میں۔۔ اور کبھی نفی میں سر ہلانے لگتی تھی۔
اب کے واپس آئی تو ہاتھ میں شاپر تھا۔ عدیل احمد کے سامنے ایک بار پھر سر جھٹک کر اپنی عینک درست کی اور مسز شیرازی کو بلانے اندر چلی گئی۔
رسٹ واچ پر ٹائم دیکھتا وہ گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگائے کھڑا ہو گیا تھا۔
گاڑی سے دروازے تک جگہ جگہ بکھرے نگوں کی سورج کی روشنی میں چمک تھی۔ اور بےتحاشہ چمک تھی۔

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt