chapter:26

307 32 15
                                    

   ★★★★★★★★★

پردوں کی درز سے جھانکتی سورج کی تیز روشنی چہرے پر پڑی تو اس نے کسمسا کر آنکھیں کھول دیں تھیں۔ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اس نے طائرانہ نگاہ کمرے میں دوڑائی۔وہ ڈاکٹر مصطفیٰ کے گیسٹ روم میں موجود تھا۔ وال کلاک صبح کے آٹھ بجا رہی تھی۔  گہرا تنفس لے کر اس نے اپنی پیشانی کو چھوا۔ بخار اب نہیں تھا،طبیعت بھی پہلے سے کافی حد تک بہتر تھی۔
وہ اٹھ کر واش روم میں گیا۔منہ ہاتھ دھوتے ہوئے اس نے خود کو آئینے میں دیکھا۔ ہونٹ خشک بےرنگ اور آنکھوں کے کنارے سرخ ہو رہے تھے۔
وہ کمرے میں واپس آ گیا۔اسے بیڈ پر بیٹھے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ڈاکٹر مصطفیٰ آ گئے۔ انہوں نے لائٹ آن کر دی۔ کھڑکی سے پردے بھی ہٹا دیئے۔
"اب کیسی طبیعیت ہے؟"
اس نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ "بہتر ہے!"
انہوں نے اسکا معائنہ کیا۔ اور معائنے کے بعد اسے  ڈانٹ بھی پلائی    کہ آخر وہ اپنی صحت کے حوالے سے اس قدر لاپرواہ کیوں ہو جاتا ہے۔ وہ چپ چاپ سنتا رہا۔ انہوں نے پڑھائی سے متعلق پوچھا وہ تو  ہوں ہاں میں مختصر جواب دیتا وہ سائڈ ٹیبل لیمپ کو ہی آن آف کرتا رہا۔
پندرہ  سالہ سلیم ٹرے میں ناشتے کے لوازمات سجائے اندر آیا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
"تم ناشتا کر لو پھر میڈیسن بھی لینی ہے۔" اس کے بالوں میں محبت سے ہاتھ پھیرتے وہ سلیم کے ساتھ باہر چلے گئے۔
کچھ دیر تک وہ بے مقصد نگاہیں یہاں وہاں دوڑاتا رہا پھر ناشتا کرنے لگا۔ زہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔وسوسے ایک بار پھر سر اٹھانے لگے تھے۔ اسے اعظم شیرازی کی آواز اطراف میں گونجتی محسوس ہو رہی تھی۔۔
"میرا صرف ایک ہی پوتا ہے۔ حماد شیرازی۔۔۔ میں کسی "فارس ھارون" کو نہیں جانتا!"
پہلے ایک دستک ہوئی۔۔پھر دوسری۔۔۔ پھر تیسری۔۔۔ چوتھی بار  دستک کم اور ٹھک ٹھک زیادہ ہوئی۔اس نے سوپ پیتے ہوئے بےساختہ سر اٹھا کر آواز کی سمت دیکھا۔ کھڑکی کے شیشے پر نھنا سا ہاتھ بج رہا تھا۔پھر چہرہ قریب ہوا۔ یقینا اسکے متوجہ ہونے کی تصدیق کی جا رہی تھی۔
پھر کھڑکی کے شیشے پر  لفظ ابھرنے لگے۔۔۔
"گٹ۔۔۔ویل۔۔۔سون!"
پیالہ ہاتھ میں لیے وہ اپنی جگہ بیٹھا رہ  گیا۔چند لمحوں کے بعد کھڑکی کا شیشہ ایک طرف سلائڈ ہوا۔۔۔ دو پونیوں والا سر اندر ہوا، ڈھیر سارا تجسس لیے شہد آنکھیں نمائیں ہوئیں۔پھر گلاب کی پنکھڑی جیسے لب کچھ حیرت اور اشتیاق سے  وا ہوئے۔۔
اب وہ اسے دیکھ رہا تھا کچھ حیرت سے۔۔۔ اور وہ کارٹون اسے دیکھ رہی تھی کچھ تجسس سے۔۔۔۔چوکھاٹ پر اپنی پوزیشن مضبوط کرتے ہوئے۔۔ اس نے ایک ایک کر کے سارے سفید پھول اندر فرش پر پھینک دیئے کہ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو پھولوں کے کچومر کے ساتھ ہی نازل ہوتی۔۔ دوسرے ہی لمحے وہ سرخ فراک سمیت  کھڑکی  پھلانگ کر اندر تھی۔۔۔
فورا پھول سمیٹے گئے۔۔۔اور ایک استحقاق کے ساتھ سائڈ ٹیبل پر رکھے خالی گلدان میں ڈالے گئے۔۔۔پھر سفید  کوٹ کی جیب سے فولڈ کیا ہوا پیپر نکالا گیا۔۔ پھر اس پیپر کو نھنی منہ ہتھیلیوں میں  رکھ کر اس کے سامنے پیش کیا گیا۔۔
ایک ہاتھ میں چمچ لیے۔۔۔دوسرے ہاتھ میں سوپ کا پیالہ تھامے چودہ سالہ فارس اپنی جگہ پتھر کے پتھر۔۔۔ اسی ابھی تک اس رونما ہونے والی سچویشن کی سمجھ نہیں آئی تھی۔۔
قدموں کی آہٹ راہداری میں گونجی تو بچی حواسہ باختہ سی اپنے گلابی  لبوں پر انگلی رکھ کر "شیش" کرتی بیڈ کے نیچے چھپ گئی۔۔۔
"میں ابھی  کلینک جا رہا ہوں پھر ملاقات ہوتی ہے۔۔۔ "
ڈاکٹر مصطفیٰ بات کرتے کرتے ٹھٹھک کر رک گئے۔ادھ کھلی  کھڑکی سے ہوتی ہوئی ان کی نگاہ  سائڈ ٹیبل تک گئی اور وہ جیسے پوری حکایت سمجھ گئے۔۔۔
"جنہ!!" وہیں کھڑے کھڑے انہوں نے کچھ خفگی سے آواز دی۔۔
اور جنہ نامی وہ مخلوق۔۔۔۔جو بیڈ کے نیچے دو زانوں بیٹھی تھی ،جھٹ سے بول پڑی۔ "جی بابا!!" دوسرے  ہی لمحے اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اس نے دونوں ہاتھ لبوں پر جما لیئے۔
"کہاں ہیں آپ؟"  یہاں وہاں دیکھتے اب وہ پوچھ رہے تھے۔کچھ ہی دیر میں وہ باہر تھی۔
"میں آپ کے فرینڈ کو "گیٹ ویل سون" کہنے آئی تھی۔ " انداز ایسا تھا جیسے یہ بہت ضروری کام ہو۔
"آپ باہر چلیں!" کھڑکی بند کر کے فارس سے معذرت چاہتے وہ اسے ہاتھ سے پکڑ کر باہر لے گئے۔فارس کی نظر اس تہہ کیے ہوئے صفحے پر جا ٹھہری جو فرش پر گرا رہ گیا تھا۔سوپ کا پیالا رکھ کر اس نے پیپر اٹھا لیا۔۔
آسمان ۔۔گھر۔۔ درخت۔۔۔دو پرندے۔۔۔ اور نیچے لکھا تھا گیٹ ویل سون!!!
"یہ بچی کون ہے؟" سلیم برتن اٹھانے آیا تو اس نے پوچھا۔
"کون؟؟جنت؟؟؟! وہ ڈاکٹر صاب کی نواسی ہے جی!"
جنت؟! زہن کے پردوں پر ایک منظر لہرایا۔جڑواں بہن بھائی۔ایک جنت اور دوسرا شاید حسن۔۔۔حسین یا حسنین تھا۔ڈاکٹر مصطفیٰ بارہا ذکر کرتے رہتے تھے۔اسے کچھ یاد آیا۔
خیالات جھٹک کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔اسکی طبیعیت پہلے سے بہتر تھی سو اس نے  شیرازی مینشن جانے کا ارادہ کر لیا۔ سویٹر کوٹ پہن کر باہر آیا تو ڈاکٹر مصطفیٰ کی نواسی صوفے پر  اوندھی پڑی تھی۔رونے کا شغل فرمایا جا رہا تھا۔سلیم پورے گھر کی صفائی کے بعد ہلکان سا سامنے بیٹھا تھا۔ صابرہ بوا کچن میں کام کر  رہی تھی۔معلوم ہوا فارس کی وجہ سے ڈاکٹر مصطفیٰ نے جنت کی بلی سلیم کو دے دی تھی۔۔۔کہ جب تک فارس یہاں ہے تو بلی اس گھر میں نہیں رہے گی۔۔۔اور جنت کمال تو  اپنی بلی کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی تھی۔۔تو بس اس ظلم پر احتجاج ہو رہا تھا۔
وہ چپکے سے گھر سے نکل گیا۔
بیک پیک (backpack) کندھے  سے لٹکائے جب وہ باغ کے راستے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوا تو مالی کو ہدایات دیتی مدحت کی نظر اچانک  اس پر پڑی اور وہ اپنی جگہ رک گئی۔نگاہیں ایک ہی مقام پر ٹھہر گئیں۔بےیقینی کا تاثر حیرت میں اور حیرت کا تاثر خوشی میں بدل گیا۔۔۔
  عجلت میں قدم اٹھاتی وہ   اس کے پاس آئی۔۔ اسکے ہاتھ اور پھر اسے کندھوں سے پکڑ کر اس نے دیکھا۔۔اس کے سامنے دس گیارہ سال کا چھوٹا سا بچہ نہیں تھا، چودہ پندرہ  برس کا ایک ہینڈسم سا ٹین ایجر تھا۔۔
جدید سٹائل سے تراشے ہوئے بال آج بھی قدرے لمبے تھے۔۔ہلکا سا خم لیے سیدھا پیشانی پر گرتے تھے اور نیک کالر کو چھوتے تھے۔۔ دھوپ میں بال سنہری لگ رہے تھے۔۔ ہیزل آنکھوں میں کچھ اور رنگوں کااضافہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔ پورے تین سال بعد اس نے شیرازی مینشن میں قدم رکھا تھا۔وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہو رہی تھی۔
"کیسی ہیں آپ؟" اس نے پوچھا۔ مدحت نم  آنکھوں سے مسکرائی ۔ "میں تو ٹھیک ہوں،مجھےیقیں نہیں آ رہا تم آ گئے،طبیعت کیسی ہے اب؟"
"ٹھیک ہے، ہلکا سا بخار تھا بس!" مدھم سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر ابھر کر معدوم ہو گئی۔وہ اسے ساتھ لیے  سرونٹ کوارٹر کی طرف بڑھ گئی۔اسکا کمرہ ہمیشہ کی طرح صاف ستھرہ اور سلیقے سے سیٹ تھا۔البتہ فرنیچر اور کمرے کی سیٹنگ کچھ حد تک بدل دی گئی تھی۔
بیڈ ،وارڈ روب،رائٹنگ ٹیبل،کمپیوٹر کے ساتھ آرائشی  قیمتی اشیاء سجی تھیں۔۔۔۔۔ مشرقی  دیوار گیر الماری میں اسکا پرانا سامان حتیٰ کہ کھلونے کتابیں،ڈائریز تک محفوظ تھیں۔
ایک طرائرانہ نگاہ اطراف میں دوڑاتے وہ بےتاثر چہرے کے ساتھ بیڈ پر جا بیٹھا۔
مدحت اسے بغور دیکھ رہی تھی۔اور کچھ کچھ فکرمند بھی تھی۔
"میں تمھارے لیے کچھ کھانے کا انتظام کرتی ہوں!"
"میں ناشتا کر چکا ہوں، صرف آرام کرنا چاہتا ہوں، " جوتے اتارے وہ بیڈ پر دراز ہو چکا تھا۔ مدحت نے چند لمحوں تک اسے دیکھا پھر  اثبات میں سر ہلاتی چلی گئی۔
دروازہ بند ہوا تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔کروٹ بدل کر پشت کے بل لیٹتے وہ سیلنگ کو دیکھنے لگا۔
اس کمرے کے ساتھ جمیلہ داؤد کی بہت سی یادیں جڑی ہوئی تھیں۔آنکھوں کے کنارے نم ہوئے تو اس نے لحاف سر تک تان لیا۔ اسے نیند نہیں آ رہی تھی مگر وہ سونا چاہتا تھا۔ اور بہت دیر تک سویا رہنا چاہتا تھا۔

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Where stories live. Discover now