★★★★★★★★
اوصاف منزل میں ایک سے زائد کام والیوں کا اضافہ ہو چکا تھا،شادی کے دن قریب تھے تو اسکے حصے کا کام بھی بڑھ گیا تھا۔
آج ثمرین کی مہندی تھی۔ مہمانوں سے بھرے گھر میں ہر طرف رنگ برنگے آنچل ہی نظر آ رہے تھے ،کوئی آ رہا ہے ،کوئی جا رہا ہے۔ وہ بچے کے ساتھ ہی چھوٹے موٹے کام سمٹا رہی تھی۔اور گاہے بگاہے آنے والے مہمانوں اور رشتہ داروں کا بھی جائزہ لے رہی تھی۔ بچے کی ماں طارق صاحب کی سگی بہن تھی۔ اپنے بھتیجی کی شادی پر تو ضرور آئے گی۔ مگر اسے ابھی تک کوئی ایسی عورت نظر نہیں آئی تھی جس کے متعلق وہ یہ گمان کرتی کہ وہی اس بچے کی ماں ہو گی۔زیادہ تر چہروں کو وہ پہنچاتی تھی۔ کوئی بھی نیا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔
مہمانوں کی دیکھ بھال اور انہیں مشروب پیش کرنے کی زمہ داری اس پر آئی تو اس نے اس نھنی جان کو کچن کے دروازے کے پاس بٹھایا،صغری کو اس پر نظر رکھنے کا کہا اور ٹرے اٹھائے سیڑھیاں چڑھ گئی۔خیال تھا بس دو منٹ میں پیش کر کے نیچے آ جائے گی مگر دو سے دس منٹ لگ گئے۔ نیچے آئی تو صغری اسے اٹھائے کھڑی تھی۔ بچہ درد کی شدت سے چیخ چیخ کر نڈھال ہو چکا تھا۔
"ہائے اللہ جی! اسے کیا ہوا!!" بوکھلا گئی۔
" دروازے میں ہاتھ آ گیا۔!"
نھنے سے سرخ ہاتھ پر نظر پڑتے ہی روبی کے پیروں تلے سے گویا زمین نکل گئی ۔
"میں کہہ کر گئی تھی اسکا خیال رکھیو!"
" اے ہے کتنے کام دیکھوں میں؟" صغری تپی کھڑی تھی۔
وہ روتے بلکتے بچے کو اٹھائے اسی وقت طارق صاحب کے پاس چلی گئی جو کھانے کا حساب کتاب دیکھ رہے تھے۔
"وہ جی بچے کا ہاتھ آ گیا دروازے میں۔۔۔"
انہوں نے سر اٹھایا۔ ایک نظر اسے دیکھا۔ دوسری نظر روتے بچے پر ڈالی۔ پھر پاس کھڑے بیٹے سے یوں مخاطب ہوئے جیسے انہوں نے روبی کی کوئی بات سنی ہی نہ ہو۔وہ مسئلہ زیادہ اہم تھا جس میں وہ الجھے کھڑے تھے۔ وہ اپنی جگہ کھڑی رہ گئی۔ پھر وہ مالکن کے پاس گئی، اسکے بعد اپنے بڑے صاحب کے چھوٹے بھائی کے پاس۔۔۔مایوس ہو کر وہ رشیداں کے یہاں چلی گئی۔
"اسے ہسپتال لے جاؤ رشیدا ! "
بچے کی حالت دیکھ کر خود رشیدا کو ترس آ گیا، فورا سے چادر اٹھائی بچہ لیا اور ہسپتال چلی گئی۔
اس تمام عرصے میں روبی خالی الذہنی کیفیت میں اپنے مالکوں کا کام کرتی بولائی بولائی سی پھرتی رہی۔
نھنی نھنی سی انگلیاں کتنی سرخ ہو رہی تھیں۔ چاند سے چہرے پر ، گال اور ماتھے پر کیسے خراش آئی ہوئی تھی۔ اور وہ چیخ چیخ کر کتنا رو رہاتھا۔ وہ اسے سوچ سوچ کر بہت پریشان ہوتی رہی۔
مہندی کی رسم سرانجام پائی جا رہی تھی۔ فارغ ہو کر وہ باہر صحن کی سیڑھیوں پر جا بیٹھی۔ نوکیا کا ٹچ بٹن موبائل ہاتھ میں تھا۔منتظر نگاہوں سے سکرین کو تک رہی تھی۔ بیلنس تو تھا ہی نہیں کہ کال کر لیتی۔ نہ ہی کبھی کال کرنے کی ضرورت پیش آئی تھی۔ اماں ہی فون کرتی تھیں۔
یکایک موبائل بج اٹھا۔ رشیداں کی کال تھی۔
"میں پہنچ گئی ہوں گھر۔ آ جا اب!"
وہ فورا سے اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگی۔عجلت میں قدم اٹھاتی دائیں طرف گلی میں مڑ گئی اور جو پہلا دروازہ نظر آیا ،اسے کھول کر اندر چلی گئی۔
بلکل سامنے ہی چارپائی پر رشیداں بیٹھی تھی۔ بچہ پہلو میں ہی سویا پڑا تھا۔ کچھ بےقراری سے وہ اس پر جھکی۔ اسکا ماتھا چوما۔ سکے نھنے سے ہاتھ کو دیکھا جس پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔
ایک ہاتھ سے پنکھا جھلاتے ہوئے رشیداں نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"ڈاکٹرنی نے تو مجھے اچھی خاصی جھاڑ پلا دی۔ سمجھ رہی تھی میرا بچہ ہے۔۔ میری لاپرواہی سے ہاتھ دروازے میں آ گیا ہو گا۔ اور چوٹ صرف ایک تو نہیں تھی روبی۔۔۔ "
"کل صائمہ بی بی کے بیٹے نے دھکا دیا تھا تو۔۔۔ سیڑھیوں سے گر گیا!" اس نے گلوگیر آواز میں بتایا
رشیداں گہری سانس لے کر رہ گئی۔
"دیکھ رشیداں!" سر اٹھا کر مخاطب ہوئی۔ "یتیم بچہ کے لیے ایک ذرا سا کام ہی تو کہا ہے تجھے!"
"تو تو ایسے کہہ رہی ہے جیسے یہ کام بہت آسان ہو۔۔بھئی مجھے کیا پتا اسکا چچا کون ہے ،کہاں رہتا ہے، نہ مجھے اسکی ماں کی کوئی خبر ہے!"
"تو اتنے سالوں سے ان کے پڑوس میں رہ رہی ہے کچھ تو پتا ہو گا تجھے۔۔ کچھ تو ۔۔"
"دیکھ مجھے بس اتنا پتا ہے وہ کوئی بڑا امیر آدمی ہے ،اسلام آباد میں رہتا ہے بس۔۔۔! " رشیداں نے باقاعدہ سر پر دوپٹہ جماتے ہوئے ہاتھ کھڑا گیا۔
"تو اپنے گھر والے سے بات تو کر۔۔ کچھ تو پتا ہو گا اسے۔۔۔ مجھے بس فون نمبر چاہیے یا پھر گھر کا پتا۔۔ باقی میں سب خود دیکھ لوں گی۔۔۔"
رشیداں نے تعجب سے اس دھان پان سی لڑکی کو دیکھا۔ جس کا خود کا سہارا نہ تھا وہ لاوارثوں کی طرح پلتے اس بچے کے لیے سہارا ڈھونڈ رہی تھی۔
"کیا خبر یہ تیری یہ نیکی اللہ کو پسند آ جائے اور وہ تیری ہر آسانیاں کر دے۔۔" وہ منت سماجت پر اتر آئی تو رشیداں نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔بات کروں گی میں۔۔لیکن وعدہ نہیں کر سکتی۔۔"
روبی نے خوش ہو کر ممنوں ہوتی نگاہوں سے اسے دیکھا پھر بچے کو احتیاط سے بازوؤں میں اٹھا لیا۔ دوائیوں کا شاپر بھی ساتھ تھا۔
"ڈاکٹرنی کہہ رہی تھی بچہ بہت کمزور ہے ،صحت کا خیال رکھو۔۔ " تشویش سے کہا۔
" جتنا ہو سکے رکھتی تو ہوں۔ دودھ میں پانی ڈال کے دیتی ہوں ۔ بڑی بیگم ایک ایک چیز پر نظر رکھتی ہے۔۔ "
رشیداں کو افسوس ہوا۔
"تو میرے سے لے جائیو کچھ چاہیے ہو تو۔۔ظالم لوگ۔۔اللہ کے قہر سے نہیں ڈرتے۔ یتیم کے ساتھ ایسا سلوک؟"
وہ اسے سینے سے لگائے چوکھٹ عبور کر گئی۔ گھر پہنچتے ہی سیدھا اپنے کمرے میں گئی۔ بچے کو احتیاط سے سلانے کے بعد چارپائی کو کھینچ کھانچ کر کھڑکی کے پاس رکھا۔ برابر میں بیٹھ کر بہت نرمی اور افسوس سے اسکے چہرے کو دیکھا۔
لانمبی پلکوں پر جگہ جگہ نمی ٹھہری تھی۔ستا ہوا گلابی چہرہ کتنا زرد ہو رہا تھا۔ نھنے نھنے سے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔ وہ واقعی میں بہت کمزور لگ رہا تھا۔
"بس کچھ دن اور۔۔۔ تجھے میں یہاں تو نہیں رہنے دوں گی!" اسکے گرد بازو ڈالے تسلی دی۔کھڑکی کے اس پار عین سامنے شادی والا گھر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ مہمانوں کی آمد رفت تاحال جاری تھی۔ دروازے کے پاس ہی اسکے طارق صاحب کھڑے تھے۔ کچھ پیسوں کا حساب کتاب کرتے ہوئے۔
اللہ کے قہر کو دعوت دیتے لوگ۔۔۔اللہ کے نام پر صدقہ خیرات کے نام پر اچھی خاصی رقم نکالنے کا سوچ رہے تھے ، تاکہ ان کی اپنی اولاد کی خوشیاں سلامت اور محفوظ رہیں۔
★★★★★★★★
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...