"جنت خدا کے لیے!!"
ڈریسنگ ٹیبل کا سامان بکھر گیا۔دیوار گیر الماری کے شیشے جھماکے سے ٹوٹ گئے۔کانچ کا گلدان جو شدید نفرت اور انتقام سے فرش پر پھینکا گیا تھا،اس کے ٹکڑے یہاں وہاں بکھر گئے تھے۔
" جنت!!! ....جنت ایسے نہ کرو....جنت نہیں !!جنت میرا بچہ...!!جنت خدا کے لیے!!"
اک تڑپ...اک پکار....اک التجاء....
اس نے پلکیں جھپکا کر دیکھا۔منظر ایک لحظے کے لیے دھندلا ہوا تها۔شاید آنکھوں کی نمی بڑھی تھی۔شاید روشنی ہی مدھم پڑی تھی۔
"برھان!!برھان مجهے بچا لیں!"
دلخراش چیخ کے ساتھ ہی اس کی آنکھ ایک جھٹکے سے کھل گئی تھی۔
بیڈ کراون کے ساتھ لگا اپنا سر اٹھاتے ہوئے وہ ہڑبڑا کر سیدھی ہو بیٹھی تھی۔داہنا ہاتھ بے ساختہ مقام قلب پر آن ٹھہرا تھا۔
مقام قلب...مقام "الم " تھا۔۔۔مقام الم.....مقام "ابتلاء"۔۔۔
تنفس بھاری، حلق خشک اور خوف کے آہنی شکنجے میں جکڑا دماغ ماوف!
نائٹ سٹینڈ کی زرکار روشنی میں، کامدار عروسی جوڑے کے دامن پر نظر پڑتے ہی وہ اپنے خواب کے اثر سے باہر آ گئی۔ بے ساختہ سر اٹھا کر اس نے متوحش نگاہوں سے اطراف میں دیکھا۔
سفید اور سیاہ رنگ کی تھیم میں خوبصورت اور نفاست سے سجے ، ایک وسیع وعریض بیڈ روم میں وہ جہازی سائز بیڈ پر گولڈن برائڈل ڈریس میں ملبوس بیٹھی تھی۔
یہ گھر اسکا نہیں تھا۔ یہ کمرہ بھی اسکا نہیں تھا۔سیکنڈ کے ہزارویں حصہ میں چند گھنٹے پہلے نکاح اور پھر رخصتی کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرا گیا۔
خشک لبوں کو تر کرتے ہوئے عروسی جوڑے کا دامن اپنے ہاتھوں میں سنبھال کر وہ بیڈ سے اتر گئی۔چوڑیاں کھنک اٹھیں، بندیا متحرک ہوئی، سونے کے نفیس آویزے اس کی صراحی نما گردن پر آگے پیچھے جھول جھول گئے۔وہ انسان ہو کر ساکت تھی۔لاکھوں کی جیولری بےجان ہو کر متحرک!
کپکپاتی انگلیوں سے دروازہ کھول کر وہ کچھ خوف، کچھ گھبراہٹ کے ساتھ باہر آ گئی.ماسٹر بیڈ روم کی دائیں سمت، عین سامنے گول زینہ تھا جو نیچے کی طرف جاتا تھا.اسی زینے کی ابتدائی سیڑھیوں پر وہ اسے بیٹھا دکھائی دے گیا تھا۔
جنت کی دھڑکن ایک لمحے کے لیے جیسے تھم سی گئی تھی۔
سر گرا ہوا،کندھے جھکے ہوئے، اور مٹھیاں اس سختی سے بھنچی ہوئیں جیسے وہ ضبط کے آخری مراحل سے گزر رہا ہو۔
دوران سفر اسکا موڈ خوشگوار نہیں تھا، وہ جانتی تھی۔ نکاح کے وقت بھی اسکے تیور ٹھیک نہیں تھے، وہ یہ بھی جانتی تھی۔
"بڑے عجیب ہیں یہ فارس بھائی..!!" سدرہ نے خاص طور پر نوٹس کیا تھا، "نکاح پیپر پر ایسے سائن کر رہے تھے جیسے....." کچھ کہتے کہتے وہ یکایک خاموش ہو گئی تھی۔
"جیسے!؟" اس نے گھنیری پلکوں کی جھالر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
" جیسے ....کچھ نہیں!" لبوں پر مسکراہٹ سجا کر اس نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔اور وہ ادھوری بات جیسے اب مکمل ہونے کو تھی۔
خود پر طاری اس جمود کو توڑتے ہوئے وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر اس کی طرف مڑا تھا۔اس کی تیکھی گہری آنکھوں میں غیض و غضب کا بڑھتا ہوا تاثر جنت بنت کمال کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑا گیا۔
"تم نے ابھی تک چینج نہیں کیا؟؟" بھاری گھمبیر آواز، پتھریلا سخت لہجہ۔
لہنگے کا فال سنبھالے جنت کی مخروطی انگلیوں کی گرفت اتنی مضبوط ہوئی کہ موتی اور نگینے ہتھیلیوں میں چھبنے لگے۔
"یہ ایک کاغزی رشتہ ہے جنت کمال!! یہ صرف کاغذ تک محدود رہے گا! " ایک ایک لفظ برودت اور کچھ نفرت سے ادا کرتے ہوئے اس کے اور اپنے مابین چند قدموں کے فاصلے کو اس نے ایک ہی لمحے میں پاٹ لیا تھا۔
کاغزی رشتہ!!!! وہ پهٹی پهٹی آنکھوں سے اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔
"ممی کو ایک بہو چاہیئے تھی۔۔۔۔صرف ایک بہو!! "بازو سے پکڑ کر خاصے جارحانہ انداز میں اسے راستے سے ہٹایا گیا۔ " یہاں صرف بہو بن کر رہو! بیوی بن کر میرے سر پر مسلط ہونے کی کوشش بھولے سے بھی مت کرنا!ورنہ بہت برا کروں گا میں!"
آنکھوں میں سختی سے دیکھتے ہوئے اس نے انگلی اٹھا کر دھمکی دی تھی،پھر اسی سرعت سے وہ کمرے میں چلا گیا تھا۔
صدمے سے ماوف ہوتے دماغ کے ساتھ جنت نے مڑ کر اسے بے یقینی سے دیکھا تھا۔ وہ جو بہت عزت اور مان سے اسے رخصت کر کے اپنے گهر لایا تھا، وہ اب کچھ نفرت اور حقارت سے بیڈ پر بکھری گلاب کی پتیوں کو ہٹا رہا تھا۔پھول بیلوں کو نوچ کھسوٹ کر پھینک رہا تھا...تازہ گلاب کے بکے تو اس نے فرش پر دے مارے تھے۔
وہ مشتعل تھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ کمرے کی ایک ایک چیز تہس نہس کر دے۔آگ لگا دے۔سب تباہ کر دے۔
جنت کی شہد آنکھوں میں ارمانوں کا خون رچ گیا۔کپکپاتے لبوں پر سکوت ٹھہر گیا۔ وہ سراپا حزن بنی آنکھوں میں حیرت ، صدمہ اور بےیقینی لیے اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔
مغربی دیوار پر ویکٹورین طرز کا اک آئینہ استادہ تھا۔جو اسکا عکس خود میں سمائے پوشیدہ حقیقت کو اس کے چہرے پر لے آیا تھا۔حقیقت.....سچائی کا روپ دھارے ایک بدعاء تھی جو اس کے پیچھے پیچھے یہاں تک چلی آئی تھی۔ یہاں تک!
گھر چھوڑنے سے،شہر بدلنے سے، نئے رشتے بنانے سےاسکا نصیب نہیں بدلا تھا۔ نفرت اور دھتکار اب بھی اسکا مقدر رہی تھی۔ لعنت پھٹکار اب بھی اسکا نصیب ٹھہری تھی۔
"گیٹ لاسٹ!" دانت پیس کر، مٹھیاں بھینچ کر اس نے حکم دیا تھا۔ مگر وہ پتھر ہوئی کھڑی تھی۔ ،ذرا ساارتعاش بھی اس کے وجود میں پیدا نہیں ہوا تھا۔
"آئی سیڈ گیٹ لاسٹ ڈیم اٹ!" اب کی بار وہ حلق کے بل دھاڑا تھا۔
بھاری کامدار لباس کا پھیلا ہوا گھیرا دودھیائی ہتھیلیوں میں سنبھالے وہ بےاختیار پیچھے ہٹ گئی تھی۔ دروازہ عین اس کے منہ پر بند ہوا تھا، کھٹاک کی آواز کے ساتھ مقفل بھی ہوا۔ ایک ایک کر کے خوش گمانی کے تمام دیئے بجھ گئے۔ ایک ایک کر کے ساری امیدیں خاک ہو گئیں۔
"ہمیشہ اچھا سوچنا!سب اچھا ہو گا!"
اس نے اچھا سوچا تھا مگر اچھا نہ ہوا تھا۔
"ہر "عسر" کے ساتھ "یسرا "ہے!"
اور اس کے آگے پیچھے، دائیں بائیں،اوپر نیچے.... ہر طرف عسر ہی عسر تھا۔ مشکل ہی مشکل... آزمائش ہی آزمائش.... محرومی ہی محرومی......سزا ہی سزا....
وہ الٹے قدم پیچھے ہوتی گئی یہاں تک کہ دیوار سے جا لگی۔
راہداری کے ایک سرے پر سیڑھیاں تھیں تو دوسرے سرے پر چهوٹا سا لاونج ..جس کی دیوار گیر کھڑکیوں سے پورا چاند نظر آ رہا تھا۔
"تم نے ماہین کے ساتھ جو کیا ہے جنت! خدا تمہیں اس کی وہ سزا دے گا جو تم ساری عمر یاد رکھو گی!"
سسکیاں سینے میں مچل گئیں۔آنسو پلکوں پر لرز گئے۔
"ساری زندگی تم نے امی کو دکھ دیئے ہیں! ساری عمر تم ان کے لیے عذاب بنی رہی ہو!" سینے میں درد اٹھا۔ تنفس بهاری ہونے لگا۔ نگاہ بند دروازے پر ٹھہر گئی۔
" ایسی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی مر جانا چاہیئے!" لفظ نشتر تھے، روح گھائل ہوئی تھی۔
بمشکل قدم اٹھاتے اس نے لاونج کا رخ کیا تھا۔ پوری تاریخوں کے منور چاند کے سامنے وہ بےنور کرسٹل فانوس کے نیچے صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔ اب وہ ایک ایک کر کے پنیں نکال رہی تھی۔ شور اب بھی تھا، آوازیں اب بھی گونج رہی تھی۔
وہ سر سے دوپٹہ اتار کر اپنے ہئیر سٹائل کے بل کھولنے لگی۔ ہیئر سپرے سے بال اکڑے ہوئے تھے۔ بمشکل سیدھے ہو پائے۔ اس نے پھر کانوں کے آویزے اتارے۔ گلے کو نیکلس کی گرفت سے آزاد کیا۔بندیا اتار کر میز پر رکھی۔
"انہیں مت اتارو جنت! ابھی جی بھر کر دیکھنے دو مجھے!"
حلق میں ابھرتی گلٹی کو بمشکل نیچے اتارے اس نے لب بھینچ کر خیالات کو جھٹکنا چاہا...افکار کو بھٹکانا چاہا...مگر ناکام رہی....آج کی رات کچھ بھی اس کے زہن سے محو ہونے والا نہیں تھا۔رہ رہ کر ایک ایک پل، ایک ایک لمحہ، ایک ایک ساعت یاد آ رہی تھی اسے۔
"خدا تمہیں اس کی وہ سزا دے گا جو تم ساری عمر یاد رکھو گی!"
سزاء!!! ۔پلکوں کی دیواروں میں شغاف ڈالتے چند آنسو اس کے گالوں پر لڑھک گئے۔
" یہ بھی برھان کا احسان ہے کہ اس نے تم پر کیس نہیں کیا..ورنہ سوچو! وہ کیا نہیں کر سکتا تھا!"
ہاں تم سوچو!!!
اب تم سوچو!!
آج تم سوچو!!
کمرے کی ہر اک شئے آواز بن گئی۔ قلب و جان کو آزار کر گئی۔
بدعاء!!!! بدعاء!!!! کھڑکیوں سے سرد ہوائیں سرسرا کر گزری تھیں۔
سزاء!!! جزاء!!! لان میں آسٹر اور آرکٹوٹس کے بے شمار پھولوں سے ہوتی ہوئی صدا بیرونی دیواروں کے اس پار ....سڑک پر جھکےاملتاس کے درختوں پر ٹھہر گئی تھی۔
جنت نے گھٹنوں پر سر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔آج کی رات ایک مشکل رات تھی اسکے لیے۔۔اور اس کے لیے بھی جو بند کمرے میں اپنا سر تھامے خاموش بیٹها تھا۔
ESTÁS LEYENDO
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...