فارس کی دھمکی کا اثر تھا یا مسز شیرازی کی فکر۔۔۔۔اس نے خود سے لڑ کر، خود کو کس حد تک سنبھال لیا تھا۔ وہ ہشاش بشاش اور کچھ حد تک فریش نظر آنے لگی تھی۔ وہ روزمرہ کی بنیاد پر بلکل ویسے ہی انہیں وقت دینے لگی تھی جیسے لاہور جانے سے پہلے وہ گزشتہ تین ماہ سے دیتی آ رہی تھی۔۔ لان میں گھومنا، کتابیں پڑھنا، اکھٹے نماز کی ادائیگی کرنا، آیات کو ڈسکس کرنا، دنیاوی خبروں پر تبصرے کرنا۔۔۔۔۔۔لیکن درپردہ بہت سے کام ایسے بھی تھے جو اس نے چھوڑ دئیے تھے۔۔۔
اس نے فارس کے معاملات میں مداخلت حتمی طور پر بند کر دی تھی۔اور اب اس کا سامنا بھی وہ کم سے کم کرنے لگی تھی۔۔۔ کمرے میں تب ہی آتی جب وہ سو چکا ہوتا۔ صبح اس کے بیدار ہونے سے پہلے ہی اٹھ جاتی۔۔آمنا سامنا صرف ناشتے کی ٹیبل پر یا شام کے کھانے پر ہوتا اور اس دوران وہ بھولے سے بھی نظر اٹھا کر اسے نہ دیکھتی۔اب فارس کے بیڈ روم میں نہ تازہ پھول سجتے تھے نہ معطر خوشبو بکھرتی تھی۔ نہ کمرے کی سیٹنگ بدلتی تھی نہ اسکی اشیاء کو ہاتھ لگایا جاتا تھا۔آہستہ آہستہ اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے اپنا میک اپ کا سامان بھی ہٹا دیا تھا۔ دیواروں کو بھی زرق برق پیٹنگز سے محروم کیا تھا۔ بیڈ شیٹس،کھڑکیوں کے پردے بھی اس نے بدلوا دیئے تھے۔ایک ایک کر کے اس نے اپنی ہر نشانی اس کمرے سے مٹائی تھی۔ایک ایک کر کے اس نے اپنی ہر چیز وہاں سے ہٹائی تھی.. اب اسے فارس کے کمرے میں اپنی پسند اور مرضی کی کوئی چیز چاہئیے بھی نہیں تھی۔۔
فارس وجدان اب اس کے لیے "عدم" تھا۔۔ یا شاید وہ خود کو صحیح معنوں میں اب "عدم" کر رہی تھی۔ خود کو لکھ کر اب وہ یکسوئی سے مٹا رہی تھی۔۔امید کے سانچوں سے نکال کر۔۔۔ فنا کی مٹی میں ملا رہی تھی۔۔۔
وقت جیسے پیچھے جا رہا تها... جتنا سفر وہ طے کر آئی تھی ، خود کو واپس نقطہ آغاز پر پہنچا کر اپنا اختتام کرنا چاہ رہی تھی۔مگر اختتام آسانی سے نہیں ہوتے۔۔۔ اپنی مرضی و منشاء سے توبلکل بھی نہیں۔۔۔۔۔۔
اک خوف پیروں میں بیڑیاں ڈالتا تها.. اب جب قدم لہولہان ہوئے تهے تو وہ اپنے ہاتهوں سے ہی ہر زنجیر توڑ کر ، خود کو آزاد کرنا چاہ رہی تھی۔۔۔ مگر یہ آزادی۔۔۔ آہ یہ آزادی۔۔۔
سوچ اور خیالات میں غلطاں۔۔۔ وہ کب کیسے چلتی ہوئی نمازوالے کمرے میں آ گئی تھی اسے نہیں پتہ تھا۔۔۔۔
سربسجود کتنی ہی دیر تک وہ سسکیاں لے لے کر روتی رہی تھی اسے اندازہ نہیں تھا۔۔۔اور جب سر اٹھاتے ہوئے سیدھی ہوئی تھی تو نم آنکھوں کے ساتھ اپنی جگہ تھم کر رہ گئی تھی۔ دروازے میں ہی مسز شیرازی موجود تھیں۔۔۔ انہوں نے اسکا آنسوؤں سے تر چہرہ دیکھا۔۔۔ آنکھوں میں لہراتا کرب دیکھا۔۔
جنت اپنی جگہ منجمد ہوئی بیٹھی تھی۔۔ آنسو آنکھوں میں ٹھہرے تھے۔۔ دل جیسے رکا ہوا تھا۔۔ شاید وہ اب پوچھ لیں کہ جب سے لاہور سے آئی ہو اتنی خاموش کیوں ہو!؟ بیمار کیوں ہو!؟ زندگی سے خفا کیوں ہو!؟کیا ہو گیا ہے تمہیں!؟ کیوں بدل گئی ہو جنت!؟اگر انہوں نے پوچھ لیا تو وہ کیا بتائے گی!؟ کیا جواب دے گی!؟
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...