★★★★★★★★★
شیرازی مینشن کے سرسبز احاطے میں اسکے فٹ بال سے کھیلتی جنت کمال ،اور اسکا بھرپور ساتھ دیتا وہ۔۔۔ منظر مکمل تھا کہ وہ خوش تھا۔اور مدحت نے وہ منظر کیمرے میں محفوظ کر لیا تھا۔ وہ تصویر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسکے البم میں سج گئی تھی۔
مسکراہٹ تو وہ ہوتی ہے جو آنکھوں میں جھلکتی ہے، جو زندگی سے بھرپور لگتی ہے تو فارس وجدان کی مسکراہٹ جمیلہ داؤد کے بعد جیسے اب زندہ ہو گئی تھی۔
وہ کم گو تھا مگر وہ جنت سے باتیں کرنے لگا تھا۔اسکے لطیفوں پر ہنسنے لگا تھا۔وہ اسکے کمرے میں بھاگ بھاگ کر چیزیں دیکھتی تھی تو وہ اسے روکتا نہیں تھا۔قیمتی اشیاء کو چھیڑنے کی کوشش کرتی تھی تو اسے ڈانٹتا نہیں تھا۔اور مدحت خوشگوار حیرت کے ساتھ اسکا بدلاؤ دیکھتی رہتی۔ کبھی مسکرا دیتی ۔۔کبھی فارس کے تاثرات سے محظوظ ہونے لگتی۔
جنت ایک تنگ کوٹھری میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جیسے تھی۔اسکی موجودگی میں شیرازی مینشن کے اس الگ تھلگ حصے میں جیسے زندگی کی لہر دوڑ جاتی۔
وہ جب بھی ملنے آتی اپنا بیگ نت نئی چیزوں سے لازمی بھر کر لاتی تھی۔ ایک ایک چیز وہ نکال کر فارس کو دکھاتی جاتی۔ یہ بالوں پر ایسے لگائے جاتے ہیں۔ اور انہیں ایسے باندھا جاتا ہے۔ اور ایسے لپیٹا جاتا ہے۔اس کے پاس تو کھلونا میک اپ کٹس بھی تھیں۔فارس کو ان چیزوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر جنرل نالج سمجھ کر وہ بےدلی سے ہوں ہاں میں سر ہلاتا سنتا جاتا۔
ایک بار وہ اپنی کسی نیلو آپا سے نیل پالش لے کر آئی اور فارس سے اپنے دونوں ہاتھوں اور پیر کے ناخنوں پر لگوا لی۔بعد میں ڈاکٹر مصطفیٰ سے بھی سر جھکا کر ڈانٹ سن لی۔
پھر اگلے دن وہ نیل پالش اسکے پاس امانتا رکھوا کر گئی کہ جب کبھی لگوانی ہو گی تو وہ اس کے پاس آ کر لگوا جائے گی اور مدحت کتنی دیر تک ہنستی رہی تھی۔
" رنگ اچھا تھا۔سوچ رہی ہوں میں بھی تم سے لگوا لوں!" آنکھوں میں شرارت سمو کر اس نے کہا۔
"آپ مجھے ڈسٹرب کر رہی ہیں!"فارس نے کتاب آگے کر کے اپنا چہرہ مکمل چھپا لیا۔
وہ زیر لب مسکراتے ہوئے الماری میں اسکے استری شدہ کپڑے رکھتی رہی۔★★★★★★★★★
ملاقات کی مدت ایک ماہ پچیس دن تھی۔اور شاید یہ اسکی زندگی کی سب سے خوبصورت ترین مدت تھی۔ یہ اسکا خیال تھا۔ کہ اسکی زندگی میں کچھ شرارت بھرے رنگ،اور مسکراہٹ بھری خوشیاں جنت کی وجہ سے آئی تھیں۔یہ اسکی اور اسکے دوستوں کی صحبت کا اثر تھا کہ اب اسے ان کی باتیں،شرارتیں، لطیفے اور کہانیاں سمجھ آنے لگی تھیں۔ کسی مزاحیہ بات پر اب اسے ہنسی آ جاتی تھی۔ کسی انوکھے قصے کو وہ انجوائے کر لیا کرتا تھا۔ اب جب وہ چاند پر کسی چرخا کاٹتی بڑھیا کا ذکر کرتے تھے تو وہ فورا مان لیتا تھا ۔کاکا کی ٹیڈ پولز مچھلیاں ہیں۔ٹیپو کا گھوڑا جب بڑا ہو گا تو اسکے پر نکلیں گے۔پھولوں پر پریاں منڈلاتی ہیں۔درختوں کی جڑوں میں ان کے چھوٹے چھوٹے گھر ہیں۔اور نہر میں جل پریاں رہتی ہیں۔
وہ بہت سی پریشانیوں اور الجھنوں کے ساتھ شیرازی مینشن آیا تھا مگراب اسے اپنی محرومیوں کو سوچنے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ ان بچوں کی سنگت میں جیسے سب کچھ بھول بھال جاتا تھا۔
شاید "خوشی" ایسی ہی ہوتی ہے۔۔جو سابقہ ہر غم،ہر اذیت بھلا دیتی ہے۔۔۔جو آنے والے ہر دن سے متعلق خوش گمانی میں مبتلا کر دیتی ہے۔
یہ احساس خوبصورت تھا۔وہ اس احساس کے ساتھ جینے لگا تھا۔
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...