Chapter:12 (تیسری قسط)

356 32 7
                                    

"ف۔۔۔ فارس!؟"جنت کے حلق  گھٹی گھٹی چیخ  نکلی۔ آنکھوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔داہنا ہاتھ منہ پر جمائے وہ متوحش ہو کر پیچھے ہٹ گئی تھی۔
وہ سانس نہیں لے رہا تھا۔اس کے وجود میں اب کوئی حرکت نہیں رہی تھی۔
وہ رو دینے والی ہو گئی۔ڈاکٹر بخاری ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔اسکی کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا اب کیا کرے۔
"جنت!!" اسے یوں لگا جیسے نانا نے کندھے پر ہاتھ رکھا ہو۔ہمت بندھائی ہو۔ حوصلہ دیا ہو۔ایک ساتھ کئی منظر اس کی آنکھوں میں لہرائے تھے۔
"جنہ!!"
خود پر طاری جمود کو توڑتے ہوئے وہ یک دم  حرکت میں آئی۔ فارس  کو سیدھا لٹاتے ہوئے اس نے نبض چیک کی پھر اسے سی پی آر دینا شروع کیا۔۔۔۔
بہتی ہوئی آنکھوں اور لرزتے دل کے ساتھ وہ اسے تب تک سی پی آر دیتی رہی جب تک ڈاکٹر بخاری نہیں آ گئے تھے۔ اس کی حالت کے پیش نظر اسے فوری ہسپتال لے جانا پڑا۔ ایمرجنسی روم تک وہ اس کے ساتھ ساتھ تھی۔۔ لیکن اس کے بعد ۔۔۔ ٹھنڈے سرد کاریڈور میں کھڑی وہ  تنہا ہی ڈاکٹرز کے عملے میں افراتفری دیکھنے لگی۔۔
وقت بدل گیا تھا۔۔۔ لیکن خوف اسی انداز میں۔۔۔ اسی راستے سے آ لپٹا تھا۔۔ احساسات یوں ہوئے تھے  جیسے وہی اذیت ایک بار پھر اپنا آپ دہرا رہی ہو۔۔۔۔
آخری بار اس طرح کی ایمرجنسی سچویشن میں وہ اپنے نانا کے ساتھ  آئی تھی۔۔۔ انہیں ہارٹ اٹیک ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا تھا۔ اسے یاد تھا وہ ان کے چہرے سے سفید چادر ہٹا کر ڈاکٹرز کی منتیں کرتی رہی تھی کہ وہ انہیں زندگی کی طرف واپس لے آئیں۔۔۔ اس دن جب اس نے نانا کا ہاتھ پکڑا تھا تو وہ سرد تھا۔۔ فارس کا ہاتھ بھی تو کتنا ٹھنڈا ہو رہا تھا۔۔۔
اس نے ڈاکٹر بخاری کو  آئی سی یو سے باہر نکلتے دیکھا تو اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ خود اٹھ کر ان کے پاس جاتی۔
"فکر کی کوئی بات نہیں ہے ، وہ خطرے سے باہر ہے !" انہوں نے قریب آ کر کہا تو اسے  لگا جیسے کافی دیر بعد اسے سانس آیا ہو۔
"اگر آپ اسے سی پی آر نہ دیتیں تو ہم اسے  نہ بچا پاتے!ایک لمحے کی تاخیر بھی اسے موت کے گھاٹ اتار سکتی تھی۔"
"اسے  کیا ہوا تھا؟"
"  کیٹ الرجی۔۔۔ اس بار ریکشن severe ہو گیا تھا!"
کیٹ الرجی؟! جنت کی آنکھیں پھیلیں۔
"ا anaphylactic shock "انہوں نے مزید کہا۔ وہ  اب براہ راست اس کے ساتھ فارس کنڈیشن ڈسکس کر رہے تھے۔تسلی اور دلاسہ بھی دے رہے تھے،
"میں اس کے لیے آوٹو انجکٹر  پریسکرائب کر دوں گا۔ اس طرح کی ایمرجنسی سچویشن میں  فائدہ مند ثابت ہو گا۔طبیعت  اس حد تک نہیں بگڑے گی۔۔اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، " ڈاکٹر بخاری جا چکے تھے۔مگر وہ اپنی جگہ پریشان صورت  کھڑی رہ گئی تھی۔
اگر وہ کمرے میں نہ جاتی، بروقت دماغ کام نہ کرتا اور وہ اسے سی پی آر بھی نہ دیتی تو شاید۔۔۔۔اس سے آگے جنت سے  کچھ بھی سوچا نہ گیا۔
اس نے مسز شیرازی سے فون پر بات کی جو فارس کے لیے حد درجہ فکرمند نظر آ رہی تھیں۔۔۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا وہ ابھی اٹھ کر اس کے پاس ہاسپٹل آ جائیں۔
" وہ اب خطرے سے باہر ہے آنٹی! اسے جیسے ہی ہوش آئے گا میں آپ کی بات کروا دوں گی، اور آپ بلکل پریشان نہ ہوں۔  میں ہوں نا اسکے ساتھ ۔۔۔ " اس نے کہا تھا۔ اور اسکا یہ کہنا ہی مسز شیرازی کو مطمئن کر گیا تھا۔ ان سے بات کرنے کے بعد وہ کافی دیر تک بے قراری سے کاریڈور میں ہی ٹہلتی رہی تھی۔

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang