★★★★★★★★
آج فارس وجدان کے دوست کی شادی تھی۔
اپنی تیاریوں میں مگن اس نے دو کامدار جوڑے بیڈ پر پھیلائے ہوئے تھے۔ ایک آسمانی رنگ کا تھا، دوسرا ہلکے گلابی رنگ کا۔۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کونسا والا پہنے؟پسند تو دونوں تھے تبھی اٹھا لائی تھی۔ مسز شیرازی کو تصویریں بھیج کر انکے انتظار میں ایسے ہی ٹہلتے ہوئے سکرین کو تک رہی تھی جب وہ ڈریسنگ روم سے نکل آیا۔کف لنکس لگاتے ہوئے نگاہ بیڈ پر رکھے کپڑوں سے ہوتی ہوئی جنت تک گئی۔ موبائل کان سے لگائے ، بائیں ہاتھ کی انگلی سے ہونٹ کریدتی وہ شش و پنج میں مبتلا لگ رہی تھیں۔
اس نے واسکٹ پہننے کے بعد کلائی پر گھڑی چڑھاتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں جنت کو دیکھا پھر کوٹ اٹھاتے ہوئے بیڈ کے قریب آیا۔ ایک سرسری سی نگاہ کپڑوں پر ڈالی پھر سائڈ ٹیبل سے موبائل اٹھاتے ہوئے سیدھا ہوا۔
"یہ کلر زیادہ سوٹ کرے گا!" اشارہ ہلکے آسمانی رنگ والے جوڑے طرف تھا۔
جنت کمال چونک کر مڑی مگر وہ تب تک لمبے لمبے ڈنگ بھرتا بیڈ روم سے جا چکا تھا۔
"ہاں اور میں تو جیسے اسکی بات مان لوں گی!"
کہہ کر سر جھٹکا۔ ایک بار پھر سکرین کو دیکھا۔مسز شیرازی آنلائن نہیں تھیں۔ نچلا لب دانتوں تلے دباتے ہوئے ایک بار پھر اپنے کپڑوں کو دیکھا۔پھر روہانسا ہو کر دس تک گنتی کی۔۔پھر جھنجھلا کر ایک سوٹ اٹھایا اور ڈریسنگ روم میں گھس گئی۔
پورے ایک گھنٹے کے بعد وہ مکمل تیاری کے ساتھ بیڈ روم سے باہر آئی تو فارس شیرازی اس پر نگاہ ڈال کر ہٹانا بھول گیا۔ ہلکے گلابی رنگ کے کامدار جوڑے میں ملبوس، نیچرل سا لک دیتا لائٹ پنک میک اپ کیے وہ کسی جیتی جاگتی گڑیا کے مشابہہ لگ رہی تھی۔بال کھلے چھوڑ رکھے تھے، اطراف میں نقرئی پنز کی مدد سے سیٹ کیے گئے تھے۔
لامبی گھنیری پلکوں کے سائے میں شہد آنکھیں لائنر کی وجہ سے اور نمایاں ہو رہی تھیں۔
لمبے جگ مگ کرتے ایرینگز ،گردن میں چمکتا نفیس لاکٹ، مخروطی انگلیوں میں ٹھہری ہوئی انگوٹھی۔ وہ کندھے پر دوپٹہ سیٹ کرتے ہوئے سامنے صوفے پر بیٹھ کر اپنی سلیور سینڈلز کی سٹرپس بند کرنے لگی۔
چند لمحوں وہ اسے اپنے دل کی نگاہ سے دیکھتا رہا۔ داہنا ہاتھ بےاختیار کوٹ کی جیب تک گیا۔ انگلیوں کی گرفت میں مخملیں ڈبیہ آئی۔
"یہ تو مجھے بعد میں پتا چلا تمھارا تو صرف دماغ ہے، دل تو سرے سے ہے ہی نہیں!" وہ شکووں بھری ایک تنبیہی آواز اسکی قوت صلب کر گئی۔
"سب تمھارے اس دل کے گرد گھوم رہا ہے!"
اس نے جیب سے ہاتھ باہر نکال لیا۔
سٹپرس باندھ کر اٹھی تو نگاہیں سیدھا فارس وجدان کی ٹائی پر جا ٹھہریں ۔ ایک لمحے کے لیے منہ کھلا، اور پھر رخ بدل کر نچلا لب دانتوں میں دیا۔ اسکے فراک کے ساتھ فارس وجدان کی ٹائی میچ کر رہی تھی!!!!!
اللہ!!!!وہ اندر ہی اندر زور سے چیخی۔اس نے جان بوجھ کر آسمانی رنگ والا جوڑا چنا تاکہ وہ گلابی فراک پہنے۔ اسے یقین تھا وہ اسکی بات نہیں مانی گی۔۔ اف!!!! جنت!! تم اتنی predictable کیوں ہو؟؟؟آخر کیوں؟!آنکھیں میچ کر خود کو اندر ہی اندر سے جھڑکا۔۔
"اچھی لگ رہی ہو!" وہ کوٹ کا بٹن بند کرتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"وہ تو میں شروع سے ہوں!" کمال بے نیازی سے کہہ کر رخ بدلا۔کہ تمھاری تعریف سے میری ہارٹ بیٹ مس نہیں ہوئی ہے نا ہی احساسات میں کوئی فرق آیا ہے۔لیکن اندر ہی اندر۔۔۔۔اف!!! اس نے تعریف کی۔۔۔ فارس وجدان نے تعریف کی!!!!!! دوسری چیخ۔۔۔۔دل بند ہونے کو تھا۔ گال دہک اٹھے تھے۔
لیکن بہت ہی تحمل ،وقار اور نزاکت کے ساتھ اپنے چھوٹے سے بیگ کی لمبی سی نقرئی زنجیر پر گرفت بڑھاتے ہوئے ایک ادا سے سر اٹھایا۔ وہ لاکھ چھپاتا مگر وہ اسکے سنجیدہ سے باوقار چہرے پر مسکراہٹ اور شرارت کا رنگ دیکھ سکتی تھی۔
"کل رات میرے موبائل پر ممی کی بہو کی مسڈکال آئی ہوئی تھی۔خیریت ہے؟ اتنی رات گئے آپ نے ایک ہی کمرے میں ہوتے ہوئے مجھے کال کی۔" متبسم لہجے میں قدرے سنجیدگی سے پوچھا۔
یہ کچھ بھولتا بھی ہے یا نہیں؟ وہ دانت کچکچا کر رہ گئی۔ "ذرا بتانا پسند کرو گے زامںبی اور مجھ میں کیا قدر مشترک ہے؟؟" ڈٹ کر پوچھ لیا۔
"تم بتانا پسند کرو گی مجھ میں اور کےٹو میں کیا قدر مشترک ہے؟" جیبوں میں ہاتھ ڈالے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔
" بہت کچھ مشترک ہے!" دانت پیس کر کہا۔
"تم میں اور زامبی میں بھی۔۔۔" وہ بولا۔
"مثلا کیا؟" وہ ضبط کی کڑی آزمائش سے گزر رہی تھی۔
"دونوں دماغ بہت کھاتے ہو!" اس نے کہہ کر کوٹ اٹھایا۔جنت کا خوبصورت چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ اب اگر اسے اپنی تیاری کا خیال نہ ہوتا تو یقینا وہ کچھ کر گزرتی۔
"میں تمھارا دماغ کھاتی ہوں؟؟ میں؟؟" غصے سے پھٹ پڑی۔"میں نے تو پھر بھی خوبصورت پہاڑوں کی تصویر لگائی ہے!"
"خطرناک پہاڑوں کی۔۔۔"فارس نے تصحیح کی۔ "کےٹو ایک کیلر ماؤنٹین ہے!"
جنت نے مٹھیاں بھینچ کر اسے دیکھا۔ خواہ مخواہ کا ایشو۔۔۔۔۔
میں نے ایک رینڈم تصویر لگائی ہے!" تحمل سے احتجاج کیا۔
"سوچ سمجھ کر لگائی ہے۔۔"وہ دوبدو جواب دے رہا تھا۔ جنت کے غصے کا گراف بڑھ گیا۔
"آخر میں تم سے کیوں بات کر رہی ہوں!" اس نے خود کو خود ہی جھڑک دیا۔
"میں بھی یہی سوچ رہا ہوں!" فارس کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ "اب چلیں؟؟ باقی کی لڑائی گھر آ کر لڑ لیں گے۔" تپا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
اپنا سفید کوٹ اٹھا کر پاؤں پٹختی دروازے کی طرف بڑھی۔
"آہستہ آرام سے۔۔۔ " اس نے پیچھے سے کہا۔
" میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں!" تنفر سے کہہ کر باہر نکل گئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے والٹ اور کیز اٹھائے اور اس کے پیچھے چلا آیا۔
★★★★★★★★★
★★★★★★★★★
شاندار میریج ھال کے بیرونی گیٹ کے سامنے گاڑی روک دی گئی۔ وہ دونوں باہر نکل کر مرکزی احاطے سے اندرونی سمت بڑھے تو استقبالیہ میں کھڑے کئی لوگوں کی نگاہیں اسکی طرف اٹھی تھیں۔ وہ جانتی تھی سب فارس کو دیکھ رہے تھے۔ اور وہ یہ بھی جانتی تھی نظروں کی زد میں وہ بھی اسکی وجہ سے ہی آ رہی تھی۔
فارس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے بازو پر رکھا۔
"اگر دنیا کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ہم میریڈ ہیں۔ تو انہیں یہ بھی پتا چلنا چاہیے کہ ہم ہیپیلی میریڈ ہیں!"
"تمہیں اپنی رپوٹیش کی کتنی فکر ہے نا!" تپ کر بولی۔
" یہ ایک پرائیوٹ میریج سیریمنی ہے ورنہ میری خبر یا تصویروں کو وائرل ہونے میں دیر نہیں لگتی !"
"اوہ اچھا! اب تم مجھے یہ بتا رہے ہو کہ تم ایک سیلیبریٹی ہو؟" اس نے خاصی اونچی آواز میں طنز کیا۔
"سیلیبریٹی تو خیر سے نہیں۔۔۔۔۔" وہ کہہ رہا تھا۔
"مگر ایک سیلیبریٹی کا بیٹا تو ہے!" اسکا جملہ اچک کر کسی اور نے مکمل کیا تھا۔
فارس کی مسکراہٹ اڑنچھو ہوئی۔تاثرات پتھر ہو گئے۔جنت نے سر اٹھا کر آواز کی سمت دیکھا تو مشروب کا گلاس ہاتھ میں لیے ایک شخص نے سر کے خفیف اشارے سے سلام کیا تھا۔فربہی مائل جسم۔۔۔سر اور مونچھوں کے بال مکمل سفید تھے۔
"میں نے تو کامران بھائی سے بھی کہا تھا۔ انہیں انوائیٹ کر لیتے تو ہماری عید ہو جاتی!"
فارس کی مٹھیاں بھینچ گئیں۔ آنکھوں میں سرخی اتر آئیں۔
"جمال گردیزی!" اپنا تعارف کرواتے ہوئے جنت کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا۔۔سلام کے لیے۔۔
"چلیں!" اس شخص کو کوئی بھی جواب دیئے بغیر وہ جنت کو بازو کے حصار میں لیتا استقبالیہ کی طرف بڑھ گیا۔جمال گردیزی کے لبوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ آ کر ٹھہر گئی۔ نگاہوں نے انکا دور تک تعاقب کیا تھا۔فارس کے رویے سے جنت کو حیرت ہوئی۔ کیا وہ ہر کسی سے ایسے ہی پیش آتا تھا؟؟
مسز شیرازی ایک آرٹسٹ تھیں،یقینا وہ اپنے آرٹ ورک کی وجہ سے انٹرنیشنل لیول پر جانی پہچانی جاتی ہوں گی تبھی جمال گردیزی نے ذکر کیا ہو گا۔ اس نے سوچا۔اس پر اتنا خفا ہونے کی تو کوئی بات نہیں تھی۔ مگر فارس کے تاثرات۔۔۔۔اسکے چہرے اور آنکھوں سے نرمی مفقود ہو چکی تھی۔ حالانکہ آتے وقت اسکے تاثرات کافی سے زیادہ خوشگوار تھے۔
شادی ھال میں فارس کے دوستوں سے ،ان کی بیویوں سے،اور انکے قریبی رشتے داروں سے ملتے ہوئے اسے ادرک ہوا وہ اتنے سارے ملکی اور غیر ملکی لوگوں میں اپنے سٹیٹس ،اپنے کاروباری معاملات کی وجہ سے بہت اہمیت رکھتا تھا۔لوگ اسے ڈھونڈ کر خود آ کر مل رہے تھے۔ خواتین اسکی توقع سے زیادہ اسکے ساتھ اچھا رویہ برت رہی تھیں۔ وہ ہر تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگتی تھی۔
وہ کم گو اور رزرو نیچر کا مالک تھا۔وہ اسے کسی کے ساتھ ہنستا مسکراتا یا پھر کھل گفتگو کرتا ہوا نہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ اپنے ہر انداز ، ہر بات اور ہر عمل میں ایک حد یا دیوار سی قائم کیے ہوئے تھا۔وہ سر کے خفیف اشارے سے نفی یا اثبات میں سر ہلاتا، مختصر لفظوں میں کوئی جواب دے کر بات ختم کرتا نظر آ رہا تھا۔
اس نے نگاہ ہٹا لی۔اب وہ آتی جاتی لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی۔۔کچھ اس کے دوستوں کی بہنیں تھیں۔ کچھ ان بہنوں کی دوستیں تھیں۔ کچھ کی آنکھوں میں رشک تھا۔۔کچھ حسد میں مبتلا تھیں۔۔ اسے بےاختیار عدینہ زبیر کے ساتھ ہونے والی اپنی پہلی ملاقات یاد آئی۔اسکی مذاق اڑاتی نگاہیں۔ تضحیک آمیز رویہ یاد آیا۔نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اپنا مقابلہ عدینہ زبیر سے کرنی لگی۔شاید وہ واقعی میں فارس وجدان کے ساتھ اچھی نہیں لگتی تھی۔ یا شاید۔۔۔اسکے ساتھ عدینہ زبیر جیسی لڑکی ہی سجتی تھی۔ اسکی روشن آنکھوں کی چمک یکایک ماند پڑی۔وجود میں بےچینی سی اتر آئی۔
گہری سانس لے کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔ فارس بلکل سامنے ہی کچھ کاروباری شخصیات کے گھیرے میں کھڑا تھا۔
وہ دائیں طرف باہر کی جانب قدم اٹھاتی گئی۔طویل راہداری ،اونچی دیواریں اور دیوار گیر کھڑکیاں کسی محل کے اندرونی حصے کا پتا دے رہی تھیں۔وہ رسٹ روم میں چلی گئی۔
اونچی لمبی شیشے کی دیواروں کے سامنے اپنے سراپے کا ازسرنو جائزہ لے کر اس نے دوپٹہ سیٹ کیا،۔ہلکے سے گلابی لبوں پر لپ گلوز کا اضافہ کر کے باہر آئی تو طویل راہداری کے دوسرے سرے پر اسے فارس نظر آیا۔ وہ یقینا اسکے انتظار میں وہاں کھڑا تھا۔
"بتا کر جانا چاہیے تھا تمہیں!" وہ قریب پہنچی تو اس نے کہا۔
"اب کوئی چھوٹی کاکی تھوڑی نہ ہوں کہ گم ہو جاؤں گی!" وہ بڑبڑا کر رہ گئی۔ گیلری کی طرف کا شیشہ سلائڈ کیا تو باہر کی طرف روشنیوں میں نہایا ہوا سرسبز قطعہ نظر آنے لگا۔ اس نے موبائل نکال کر کچھ تصویریں کھینچیں۔
"مسز سلیمان تم سے کیا کہہ رہی تھیں۔؟" وہ ستون کے ساتھ پشت ٹکا کر کھڑا ہو گیا۔
"وہ ہماری شادی پر نہیں آ سکی تھیں اس لیے شادی کی اسنیپس دیکھنا چاہ رہی تھیں!"
"تو تم نے دکھائیں؟"
"نہیں!"
"کیوں؟" وہ حیران ہوا۔
جنت نے گردن موڑ کر اسے خشمگیں نگاہوں گھورا جیسے پوچھ رہی ہو کیا تم واقعی نہیں جانتے؟
"میں کچھ سمجھا نہیں!"
"آئمہ نے ہماری تصویریں دیکھ کر جانتے ہو مجھ سے کیا کہا؟؟ یہ فارس بھائی ایسے کیوں بیٹھے ہیں جیسے منہ میں مرچیں چبائے ہوئے ہوں۔ اب میں دوسروں کو خود پر مذاق اڑانے کا موقع دوں؟وہ سوال اٹھائیں دلہا آخر ایسے کیوں بیٹھا ہے۔۔۔اسکا موڈ کیوں آف ہے۔۔ اتنے غصے میں کیوں لگ رہا ہے؟خوش کیوں نہیں ہے؟ زبردستی کی شادی ہوئی ہے کیا؟؟؟ کوئی ایک تصویر بھی ایسی نہیں کہ بس اتنی سی مسکراہٹ ہی نظر آ رہی ہو۔"
اسکا لہجہ غمگین اور انداز شکوہ بھرا تھا۔ فارس وجدان اپنی جگہ کھڑا رہ گیا۔ دل کی کیفیت عجیب ہوئی کہ وہ خوبصورت ترین لمحوں کو نہ صرف اپنے لیے بلکہ اس کے لیے بھی تکلیف دہ بنا چکا تھا۔وہ وقت جو یادگار رہنا تھا۔۔۔وہ تصویروں میں مقید ہو کر اذیت کا باعث بن رہا تھا۔
وہ اسکے پیچھے بہت قریب آ کھڑا ہوا۔ وہ ریلنگ پر ہاتھ رکھے دور تک دیکھ رہی تھی۔
آہستگی سے موبائل جیب سے نکالا۔ بازو کے حصار میں لے کر قریب کیا۔ موبائل کا فرنٹ کیمرہ آن تھا۔لمحے میں تصویر کلک ہوئی تھی۔۔وہ اپنے خیالوں میں گم تھی۔ اس حرکت پر بوکھلائی۔دوسری کلک ہوئی۔ شکوہ اس لیے تو نہیں کیا تھا کہ وہ تصویریں لے۔
"اچھی آئی ہے!" کہہ کر اسے بھی دیکھائی۔
وہ منجمد اعصاب کے ساتھ کھڑی تھی۔ ہاں وہ اپنی تصویر کو اچھا کہہ سکتا تھا۔
"ڈلیٹ کرو اسے!" آگے بڑھ کر موبائل چھیننا چاہا۔
"میں بہت اچھا لگ رہا ہوں!"
"لیکن میں اچھی نہیں لگ رہی۔۔۔ادھر دو مجھے!!" ایک تو وہ لمبا ،اوپر سے ہاتھ بھی اونچا کر لیا۔وہ روہانسا ہوئی۔
" ممی کو سینڈ کرتا ہوں!"
"ہرگز نہیں!! "وہ دبی آواز میں چلائی۔
"مگر کیوں؟"ذرا حیران ہو کر اسے دیکھا۔
"میری تصویر اچھی نہیں آئی اسے ڈلیٹ کر دو!" ضبط کر کے بولی۔
"تو ٹھیک ہے ممی کے لیے ایک تصویر کھنچوا لو میں اسے ڈلیٹ کر دوں گا!"
"فارس!!!" اسے غصہ چڑھ گیا۔وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے پیچھے ہٹا۔ وہ اسکی ضد سے واقف تھی۔ناچاہتے ہوئے بھی مدھم پڑی۔ تیور بگڑے ہوئے تھے"ٹھیک ہے ۔پہلے وعدہ کرو تم یہ ڈلیٹ کر دو گے!"
"ہاں کر دوں گا!" اچھی خاصی تصویر کا وہ ایشو بنا رہی تھی۔
"وعدہ کرو پہلے۔۔۔"
"پکا کر دوں گا۔۔۔"
"مجھے تم پر کوئی یقین نہیں!"
"میں وعدہ کرتا ہوں کسی کو نہیں بھیجوں گا ،خود ہی دیکھ کر ہنستا رہوں گا!"شرارت سے کہا۔
اور وہ سچ مچ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر لائی۔ فارس اسے دیکھ کر رہ گیا۔ وہ اتنی سی بات پر اتنا حساس کیوں ہو رہی تھی؟
"اچھا نہیں ہنسوں گا اور ڈلیٹ بھی کر دوں گا۔ " قریب آ کر بازو دراز کر کے ایک سیلفی لینا چاہی۔اب کی بار وہ اسکی پہلو میں آرام سے کھڑی رہی۔سر اٹھا کر مسز شیرازی کے لیے دل سے مسکرائی۔ آنکھوں کی نمی بڑھی۔اور تصویر بہرحال بہت اچھی آئی۔وہ دونوں اپنے آپ میں ادھورے۔۔اپنی تصویر میں مکمل لگ رہے تھے۔
کچھ دیر تک راہداری میں ٹہلتے رہنے کے بعد وہ اسکے ساتھ ہال میں واپس آ گئی۔ وہ اب کچھ بہتر تھی۔ذرا موڈ بھی بہتر تھا۔پہلو میں بیٹھا فارس بےحد سنجیدگی سے ہر تھوڑی دیر بعد کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور کر دیتا جس سے وہ غصے سے لال بھبھوکا ہو جاتی۔ پھر جھک کر سرگوشی میں جواب دے کر اسے لاجواب کرتے ہوئے طنز سے مسکراتی تو اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری رکھنا فارس کے لیے مشکل ہو جاتا۔اسکی آنکھیں مسکرانے لگتی تھیں۔ تاثرات میں تبسم آ جاتا تھا۔ مسرت بھرے رنگ ہر انداز سے چھلکنے لگتے تھے۔ وہ نظروں میں کچھ اس لیے بھی آ رہا تھاکہ معمول سے ہٹ کر وہ بہت مطمئن ، بہت خوش لگ رہا تھا۔
غالبا اسے کبھی بھی ،کسی نے اس طرح اتنے خوشگوار موڈ میں ۔۔۔ اتنا مسکراتا نہیں دیکھا تھا۔ اسکی دوسری شادی کے سلسلے میں جتنی چےمے گوئیاں ہوئی تھیں، جتنے افسانے گھڑے گئے تھے، جتنی باتیں بنائیں گئیں تھیں تو اب وہاں بھی بہت سے حریفوں کو اپنے منہ کی ہی کھانی پڑی تھی۔
وہ لمحے خوبصورت تھے۔۔ اور خوبصورتی سے گزر گئے۔ شادی کا فنکشن ختم ہوا تو اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے۔کچھ قریبی دوستوں سے ملنے کے بعد وہ فارس کے ہمراہ بیرونی دروازے پر آئی تو اس وقت رم جھم بارش برس رہی تھی۔ ٹھنڈک کا شدت سے احساس ہوا۔ اس نے کوٹ ،مفلر اور دااستانے پہنے ہوئے تھے مگر پھر بھی کپکپا رہی تھی۔
"کیا بنے گا آپ کا!"فارس کہے بنا نہ رہ سکا۔
"اس طرح کھڑے رہے تو قلفی بن جاؤں گی۔" لرزتی آواز میں کہا۔پھر اسکے بازو پر گرفت بڑھاتے ہوئے چھتری کے سائے میں گاڑی کی جانب بڑھ گئی تھی۔
وہ اتنی تھکی ہوئی تھی کہ گھر پہنچتے ہی سو گئی مگر فارس نے کپڑے بدل کر لیپ ٹاپ اٹھا لیا تھا۔
وہ شادی کے پورے سات ماہ بعد آج اپنی شادی کے تصویریں دیکھ رہا تھا۔
وہ اسکے پہلو میں بظاہر مطمئن ،سر اٹھائے بیٹھی تھی مگر اسکی شہد آنکھوں میں خوف نمایاں تھا۔ جیسے وہ نہ جانتی ہو اب اسکے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔ زندگی اب اسے کس دوراہے پر لانے والی تھی۔ کس آزمائش میں ڈالنے والی تھی۔اسکے ہاتھ باہم پیوست تھے۔ چہرے پر کہیں کہیں تفکرات کی پرچھائیاں لہرا رہی تھیں۔
وہ برائڈل ڈریس میں انتہاء کی حسین لگ رہی تھی اور یہ حسن اس رات اسے نظر نہیں آیا تھا۔ اس نے نظر بھر کر تو اسے دیکھا بھی نہیں تھا۔
جنت کمال نے اپنی رات اسکی سٹڈی میں بتائی تھی ۔یہ نئی زندگی کا آغاز تھا۔۔نئے گھر میں پہلی رات ۔ نئی رشتے کی پہلی نفرت تھی۔۔۔
وہ بھاری دل کے ساتھ تصویریں بدلتا جا رہا تھا۔
ولیمے کی تصاویر میں وہ سر اٹھائے ،گردن اونچی کیے زیادہ مسکرا رہی تھی۔زیادہ خوش نظر آ رہی تھی۔ہر کسی سے بہت کانفیڈنس سے بات کرتی، اپنے دوپٹے کو سیٹ کرتی، اپنا پوسچر بہتر کرتے ہوئے اس نے اپنی تصویریں بہت اعتماد سے کھنچوائیں تھیں۔ وہ حیران تھا۔ وہ ایک بار پھر حیران ہوا تھا۔ اس شب جو رویہ اس نے دیا تھا۔ اور جس طرح اسکی حیثیت وضع کی تھی, اسے کمرے سے نکالا تھا، اس کے بعد بھی وہ کھل کر مسکراتے ہوئے اتنے سارے لوگوں کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
وہ اپنے خاندان میں واپس نہیں جانا چاہتی تھی۔ وہ اس شادی کو ہر صورت نبھانا چاہتی تھی۔مگر اسکے احساسات ،اسکی زندگی اسکی مجبوریوں سے قطعی بےخبر فارس وجدان نے اسکا ہر خواب، اسکی ہر امید خاک میں ملا دی تھی۔زندگی جتنی اس پر تنگ تھی مزید اس نے کر دی تھی۔
وہ لاونج سے اٹھ کر کمرے میں آ گیا۔
وہ گہری نیند میں تھی۔ صوفے کی وجہ سے خود میں سمٹ کر سونے کی عادت ہو چکی تھی۔ کتنی ہی دیر تک وہ اسکے پاس کھڑا رہا۔ پھر پاس بیٹھ کر اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
ایسے جیسے ابھی بھی ڈر ہو وہ پلک جھپکتے ہی کسی خواب۔۔کسی خیال کا حصہ ہو جائے گی۔ یہ خوف۔۔۔۔ یہ بےسکونی۔۔۔یہ کچھ کھو دینے کا احساس اسکی رگ رگ میں اترا ہوا تھا۔
وہ نیند میں ذرا سا کسمسائی تو اسکی بےآرامی کے خیال کر کے ہاتھ ہٹا لیا۔
شادی اچھے حالات میں نہیں ہوئی تھی۔ شادی مرضی اور چاہ سے بھی نہیں ہوئی تھی۔ مگر جو عطاء کیا گیا تھا وہ ایک مرحم تھا۔۔۔ ان زخموں کا جنہیں وہ سالہاسالوں سے اپنی روح پر لیے پھر رہا تھا۔ اور اس امر کا ادراک اسے بہت تاخیر سے ہوا تھا۔ اپنے انعام سے آگاہی بہت دیر سے ملی تھی۔ اور اسے اس بات کا پچھتاوا تھا۔۔بےحد پچھتاوا تھا۔۔۔
★★★★★★★★★

YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...