Chapter:10۔۔سفر۔۔۔

350 29 6
                                    

وہ پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے میز پر ہیڈ ڈاون کیے بیٹھی تھی۔نہ نیند آ رہی تھی۔ نہ سکون مل رہا تھا۔۔ سلگتی ہوئی متورم آنکھیں بھی اب تکلیف پہنچانے لگی تھیں۔۔۔

پٹھان لڑکا اس کے لیے چائے لے آیا تھا۔ ٹیبلٹ وہ لے چکی تھی مگر اس کی طبیعت تھی کہ کسی بھی صورت سنبھلنے میں نہیں آ رہی تھی۔۔ جسم میں اب مروڑ اٹھ رہے تھے۔۔کوئی ایسا انتظام بھی نہ تھا کہ وہ دراز ہو کر سو جاتی۔۔۔

"صاب تمارا آدمی کب آئے گا !!" پٹھان لڑکا صرف ان کی ہی وجہ سے سٹور بند نہیں کر رہا تھا۔

فارس نے کلائی موڑ کر وقت دیکھا۔۔۔ اس کے اندازے کے مطابق عدیل کو اب تک پہنچ جانا چاہیئے تھا۔ کچھ سوچ کر اس نے موبائل نکالا۔۔۔ اور اس سے قبل کہ وہ کال کرتا،سیاہ مرسڈیز سٹور کے سامنے آ رکی تھی۔۔ ہیڈ لائٹس کی تیز روشنی گلاس ڈور پر پڑی۔۔۔ ہارن بھی بجا۔۔ اور موبائل پر کال بھی آنے لگی۔۔۔

جنت نے بےساختہ سر اٹھاتے ہوئے باہر دیکھا۔سامنے دو گاڑیاں تھیں۔ ایک میں عدیل اور دوسری گاڑی میں اس کے گارڈ سوار تھے۔۔۔

"ازایوری تھنگ آلرائٹ سر!!" عدیل اندر آ گیا تھا۔ اسے آکسیڈنٹ کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے وہ دروازے میں ہی کھڑا رہا تھا۔۔ عدیل ہدایات لے کر پلٹ گیا تو اس نے سرسری نگاہوں سے جنت کو دیکھا جو اپنی جگہ سے اٹھ کر اسی طرف آ رہی تھی۔۔

فارس کے قریب سے گزرتے ہوئے، اسے یک دم اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا، اس سے قبل کہ وہ لڑھکھڑا کر گرتی ' فارس نے بروقت اسے بازو سے پکڑ کر سنبھال لیا۔۔۔

فارس کی یہ حرکت اتنی غیر متوقع اور اچانک تھی کہ جنت کو سنبھلنے میں۔۔۔ اور پھر سنبھل کر سمجھنے میں چند لمحے لگے۔۔۔اگلے ہی لمحے اس نے شدید غصے کے عالم میں بدک کر اپنا بازو یوں چھڑایا جیسے اسے سانپ نے پکڑ لیا ہو۔۔

دیوار کا سہارا لے کر۔۔۔ اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے اس نے سخت پتھریلی نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔

"میرا ہاتھ کیوں پکڑا تم نے!؟"اب کے اسکا سوال، رویہ اور تاثرات فارس وجدان کے لیے غیر متوقع تھے۔ وہ اس پوزیشن میں ہرگز نہیں تھی کہ اس سے بحث مباحثے کر سکتی۔بخار کی شدت سے جسم تپ رہا تھا۔۔ آنکھیں دھندلی ہو رہی تھیں۔ سر گھوم رہا تھا۔۔۔ اور تب بھی وہ سمجھ رہی تھی کہ اگر کوئی بروقف اسے گرنے سے بچا رہا ہے تو اس کے حق میں غلطی کر رہا ہے۔۔۔

فارس کے جبڑے بھنچ گئے۔۔ عدیل احمد اور گارڈز کے سامنے جس طرح وہ اس کے ساتھ پیش آئی تھی، وہ بمشکل ضبط کیے کھڑا تھا ورنہ دل چاہ رہا تھا ایک تھپڑ تو لازمی جڑ دے اسے۔۔۔

"باجی یہ لڑائی وڑائی ختم کرو۔۔ تمارا طبیعت خراب ہے۔۔ تم گر جائے گا!" بٹھان لڑکے نے ہی اسے کام ڈاون کرنے کی کوشش کی تھی۔۔ان دو گھنٹوں میں ان کے لیے دیے رویے سے وہ اتنا تو جان ہی چکا تھا کہ کوئی اعلی اور غیر معمولی قسم کی دشمنی ہے جو ان دونوں میں جانے کب سے چلی آ رہی ہے۔۔۔۔

𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀Hikayelerin yaşadığı yer. Şimdi keşfedin