شیرازی مینشن کے وسیع و عریض لاونج میں موت بھری خاموشی چھائی تھی۔۔۔ موجودہ نفوس پر سکتہ طاری تھا۔۔۔۔ نہ سماعت میں یقین اترتا تھا نہ آنکھوں سے ایقان جھلکتا تھا۔۔۔حالانکہ ھارون شیرازی ایک مجسم حقیقت کے ساتھ ان کے سامنے ہی تو کھڑا تھا۔۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے۔۔ پشیمانی کا اظہار کرتے اور سر جھکا کر معافی کی درخواست کرتے اس نے ایک لمحے کے لیے بھی جمیلہ داود کی طرف نہیں دیکھا تھا۔۔دیکھ لیتا تو پتھر ہو جاتا۔۔ پتھر ہوتا تو کچھ کہہ نہ پاتا۔ جبکہ اسے بہت کچھ کہنا تھا۔۔۔
"میراوارث۔۔۔۔ میرا خون۔۔۔ صرف حماد ہے ھارون!یہ تمھاری عیاشیوں کا نتیجہ۔۔۔ ایک آوارہ اور بدچلن عورت کے بطن سے جنم لینے والا!اسے ابھی اور اسی وقت لے جاو یہاں سے!!! "
خاموشی اعظم شیرازی نے توڑی تھی۔ اور کسی بپھرے ہوئے شیر کی طرح چنگھاڑتے ہوئے توڑی تھی۔۔۔ ان کی بلند آواز سے بچے پر ہیبت طاری ہوئی تھی۔ ان کے سخت پتھریلے تاثرات سے وہ بہت خائف ہوا تھا۔
"آرزو نے طلاق لے لی ہے، اب میرے ساتھ ہی رہے گا!" جھکے سر کے ساتھ نظریں چرا کر کہا گیا۔
جمیلہ داود نے ڈگمگاتی نگاہوں سے اسے دیکھا۔ اسکی اذیت بڑھ گئی۔ آن کی آن میں محبت، وفاء اور قربانیوں کا تماشا بنا تھا۔وہ پاش پاش ہو گئی تھی۔۔۔
"تمہیں اندازہ بھی ہے تم اس وقت کیاکہہ رہے ہو!؟" اعظم شیرازی انتہائی غصے کے عالم میں پھنکارے تھے۔۔۔ "جمیلہ کے خاندان کو تمھاری دوسری شادی کی بھنک بھی پڑ گئی تو وہ تمھارا کیا حشر کریں گے کچھ اندازہ بھی ہے تمہیں!؟!؟"
جمیلہ داود کے ذکر پر۔۔ھارون شیرازی نے اب کے سر اٹھا کر اسے ہی دیکھا تھا۔بس ایک لمحے کے لیے پھر اس نے نظریں ہٹالیں۔۔۔
"بابا۔۔۔۔ "
"میرے صبر کا مزید امتحان مت لو!" اعظم شیرازی نے انگلی اٹھا کر اسے روکا۔۔ "ابھی اور اسی وقت اسے یہاں سے لے جاو۔۔۔"آرزو کے بیٹے کے لیے ان کی آنکھوں میں نفرت تھی۔۔۔۔ بےزاریت تھی۔۔۔ غصہ تھا۔۔ برودت تھی۔۔۔۔
"بیٹا ہے یہ میرا، ...."
"میرااور تمھارا وارث صرف حماد ہے ، میں اس طوائف کے بچے کو مزید ایک لمحے کے لیے بھی اس گھر میں برداشت نہیں کر سکتا!" حکم سنا کر وہ اسی لمحے اٹھ کر چلے گئے تھے۔۔۔
شیرازی مینشن کے وسیع وعریض لاوئج میں ھارون اپنے بچے کے ہمراہ تنہا کھڑارہ گیا۔۔وہ صدمے سے گنگ تھا۔۔کچھ حیران اور بے یقین بھی۔۔۔ اس کے تو وھم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اعظم شیرازی اس کے بچے کو قبولنے سے انکار کر دیں گے۔۔۔۔
جمیلہ کی آنکھوں میں اب حیرت نہ تھی۔۔۔ صدمہ بھی نہ تھا۔۔۔ اس نے جیسے اذیت کے عالم میں یقین کی تمام منازل طے کر لی تھیں۔۔۔ ھارون اپنی دوسری بیوی کے بچے کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔ یہ خواب تھا۔۔۔ نہ خدشہ۔۔۔ نہ خیال۔۔۔۔ یہ ایک حقیقت تھی۔۔۔۔تلخ حقیقت۔۔۔ جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا تھا۔۔
محبت و احترام سے جڑے شادی شدہ زندگی کے آٹھ سال ایک دھوکا تھے، دکھاوا تھے ،فریب تھے۔۔۔۔ درپردہ ھارون پچھلے آٹھ سالوں سے اپنی اسی محبت کے ساتھ تعلق میں رہا تھا جس سے اعظم شیرازی نے اسکی شادی نہیں ہونے دی تھی۔۔۔
وہ بھی اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔۔۔۔ اپنے کمرے میں بند ہو گئی۔۔۔۔
ھارون اب بھی نیچے تھا۔۔۔ وہ ایک بار پھر اپنے باپ کی سٹڈی کے سامنے کھڑا تھا۔۔ انکی منت کر رہا تھا۔۔ ان سے معافی مانگ رہا تھا۔۔۔مگر اعظم شیرازی کسی بھی صورت "آرزو جہانگیر" کے بچے کو قبولنے کے لیے تیار نہ تھے۔۔۔
یہ سچویشن ایک جنگ کی سی تھی۔۔جیسے ملک کے نامور کاروباری ہستیوں کے درمیان جو معاہدہ طے تھا اسکے ٹوٹنے کا خطرہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ جیسے اپنی کمزوری کسی دوسرے فریق کو تھما دینے کا خدشہ۔۔۔
" وہ میرا بیٹا ہے بابا میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا!"اگلے دن وہ پھر ان سے کہہ رہا تھا۔۔۔
اعظم شیرازی اپنے شاندار بیڈ روم کی دیوار گیر کھڑکیوں کے سامنے پشت پرہاتھ باندھے کھڑے تھے۔۔۔ ان کے جبڑے بھنچے ہوئے تھے۔۔۔ قہر برساتی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ ۔۔۔ وہ ۔ملک کے ایک نامور بزنس ٹائکون تھے۔۔۔۔اپنے انداز اور شخصیت میں کسی حاکم جیسا رعب رکھتے تھے۔۔۔۔اصول و روایات کے پابند، کچھ مغرور اور متکبر ا جو اپنے اعلی حسب و نسب اور تعلیمی قابلیت پر فخر کرتے تھے۔۔۔انہیں یہ بچہ کسی صورت قبول نہ تھا۔۔۔۔
"آرزو کے پاس چھوڑ آو اسے!"
"وہ اسے اپنے ساتھ نہیں رکھنا چاہتی!"
"یہ میرا درد سر نہیں!"
"بابا پلیز!!" وہ گڑگڑایا۔۔۔" یہ بھی آپ کا پوتا ہے!"
" میرا پوتا صرف حماد ہے! جس کی ماں خاندانی ہے،" وہ پلٹ کر دھاڑے تھے،"یہ اس آوارہ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔"
ھارون شیرازی کرب سے لب بھینچ کررہ گیا۔۔۔
" آپ اسے میرے ساتھ رہنےدیںجیے !"
"وہ یہاں رہے گا تو سب کو معلوم ہوجائے گا!" اصل مدعا جیسے اب لبوں پر آیا تھا۔ وہ بچہ ان کے لیے ذلت ،توہین اور بے عزتی کی علامت تھا۔ وہ ان کے لیے ایک غلطی۔۔۔ ایک گناہ جیسا تھا۔۔ جسے چھپانا مقصود۔۔مٹانا ضروری ہو گیا تھا۔
جسا چھپانا مقصود مٹانا ضروری ہو گیا تھا۔
"بابا۔۔۔پلیز مجھے معاف کر دیں۔میں مانتا ہوں یہ میری غلطی ہے۔آپ جو بھی سزا دیں میں بھگتنے کے لیے تیار ہوں اس طرح مت کیجیے!"
کمرے میں یک دم ہی گہری خاموشی چھا گئی۔۔۔ اعظم شیرازی سخت پتھریلی نگاہوں سے اب ھارون کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
جمیلہ داود ادھ کھلے دروازے کے اس پار رک گئی تھی۔
"ایک شرط پر میں تمھاری اس غلطی کو نظرانداز کر سکتا ہوں!" لہجے میں وہی عناد اور سختی تھی۔
جمیلہ نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا۔۔۔اب وہ کیا کہہ رہے تھے!؟
"اسے میرے حوالے کر دو٫اور بھول جاو کہ حماد کے علاوہ تمھارا اور کوئی بیٹا بھی ہے!"
ھارون کے پیروں تلے سے زمین نکلی تھی۔سر پرآسمان ٹوٹا تھا۔پھٹی پھٹی نگاہوں سے وہ اپنے باپ کو دیکھ کر رہ گیا۔صدمے کے عالم میں جمیلہ داود بھی اپنی جگہ کھڑی رہ گئی تھی۔
اعظم شیرازی کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔۔۔ ان کی بات تو جیسے اب شروع ہوئی تھی۔۔۔
"اسے تمھارا نام نہیں ملے گا، وراثت میں حصہ بھی نہیں اور نہ ہی وہ ہمارے خاندان کا کبھی حصہ بنے گا۔۔۔" انداز دو ٹوک تھا۔۔ لہجہ قطعیت بھرا۔۔۔فیصلہ غیر متزلزل۔۔۔۔ ہر لفظ پتھر پر لکیر۔۔۔
ھارون شیرازی کے چہرے پر وحشت پھیل گئی۔۔۔۔ ہر شئے کا حساب رکھا تھا اس نے مگر اس کا نہیں۔۔۔۔
" وہ اسی نام اور پہچان کے ساتھ رہے گا جو میں اسے دوں گا، کیئر ٹیکر کا انتظام ہو جائے گا، پڑھائی کا اخراجات۔۔۔۔۔۔سب میں مینیج کروں گا لیکن تمہیں ہر صورت۔۔۔ہر حال میں اس سے دور رہنا ہو گا!"انگلی اٹھا کر ایک بار پھر اپنے ارادے واضح کیے گئے۔۔۔۔" کیونکہ نہ تو میں اس بدنام زمانہ لڑکی کے ساتھ تمھارا کوئی سکینڈل افورڈ کر سکتا ہوں اور نہ ہی جمیلہ کے خاندان سے دشمنی مول لے سکتا ہوں!"
ھارون شیرازی کی پھٹی پھٹی آنکھوں میں انتہائی برودت سے دیکھتے ہوئے انہوں نے حتمی فیصلہ سنایا تھا۔۔۔
" اور اگر تمہیں میرے اس فیصلے سے اختلاف ہے تو تم اسے یہاں سے لے جا سکتے ہو، لیکن یاد رکھو،جس وقت تم اس گھر کی دہلیز پار کرو گے، میں بھول جاؤں گا میرا ھارون نام کا کوئی بیٹا بھی ہے!!"
ھارون شیرازی کا سانس رکا ہوا تھا۔۔دھڑکنیں تھمی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔ وہ اب بھی اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا۔۔۔حیرت، بےیقینی اور صدمے سے۔۔۔ اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا تھا۔۔۔
کوئی اپنے پوتے کے ساتھ ایسا بھی کر سکتا ہے!؟وہ سوچ رہا تھا۔مگر وہ غلط سوچ رہا تھا۔اعظم شیرازی نے سرے سے اس بچے کو تسلیم نہیں کیا تھا۔۔ وہ اسکے لیے رحمدل ہوتے بھی تو کیسے!؟ احساس کرتے بھی تو کیوں!؟ وہ تو اپنے کپڑوں پر ہلکا سا داغ تک نہ برداشت کرتے تھے تو اب ایسے داغ کو کیسے رہنے دیتے جس کی پاداش میں مستقبل میں کوئی سکینڈل بننے کا خدشہ ہوتا۔۔۔
مزید کچھ بھی سنے بغیر جمیلہ داود وہاں سے ہٹ گئی تھی۔۔ روئی روئی سی سرخ و متورم آنکھوں کے ساتھ وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی تو دل بےوفائی کےغم سے پھٹنے لگا۔۔۔
یہ حقیقت تھی کہ شیرازی اور لاشاری خاندان کے مابین جڑنے والا یہ رشتہ ایک بزنس ڈیل کی طرح تھا۔خاندان کے بڑوں نے اپنے کاروباری اورسیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دونوں کوایک کیا تھا۔ مگر جمیلہ نے کبھی بھی اس رشتے کو مصلحت کی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا۔۔ وہ ھارون سے محبت کرتی تھی۔۔بدلے میں وہ بھی اسے محبت ہی دکھاتا رہا تھا۔ مگر وہ محبت ایک دکھاوا تھی اسکا انکشاف کل رات ہوا تھا۔۔یہ انکشاف اسے راکھ کر گیا تھا۔۔یہ انکشاف اس کی محبت، وفاء اور اعتماد کا تماشا بنا گیا تھا۔
سلگتی آنکھوں کو بے دردی سے رگڑتی وہ کھڑکیوں کے سامنے جا کھڑی ہوئی تھی۔ اور تب ہی اس نے ھارون کوسیڑھیاں اترتے دیکھا تھا۔ اس کے چہرے پر کرب تھا اور آنکھیں بےتحاشہ سرخ ہو رہی تھیں۔۔۔
اعظم شیرازی اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے تو کیا ھارون گھر چھوڑ کر جا رہا ہے!؟
بھاری دل کےساتھ اس نے ھارون شیرازی کو صدر دروازے کی جانب بڑھتے دیکھا۔۔۔۔
"جس وقت تم اس گھر کی دہلیز پار کرو گے، میں بھول جاؤں گا میرا ھارون نام کا کوئی بیٹا بھی ہے!!"
اور وہ اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ وہ خالی ویران آنکھوں سے اسے صدر دروازے سے باہر نکلتا دیکھ رہی تھی۔
ھارون شیرازی نے گھر کی دہلیز پار کر لی تھی۔۔۔ وہ اپنے بچے کو ساتھ لے کر نہیں گیا تھا۔۔۔
★★★★★★★★
★★★★★★★★★
YOU ARE READING
𝐔𝐒𝐑𝐈 𝐘𝐔𝐒𝐑𝐀
Romance𝐍𝐨 𝐩𝐚𝐫𝐭 𝐨𝐟 𝐭𝐡𝐢𝐬 𝐩𝐮𝐛𝐥𝐢𝐜𝐚𝐭𝐢𝐨𝐧 𝐦𝐚𝐲 𝐛𝐞 𝐫𝐞𝐩𝐫𝐨𝐝𝐮𝐜𝐞𝐝, 𝐝𝐢𝐬𝐭𝐫𝐢𝐛𝐮𝐭𝐞𝐝, 𝐨𝐫 𝐭𝐫𝐚𝐧𝐬𝐦𝐢𝐭𝐭𝐞𝐝 𝐢𝐧 𝐚𝐧𝐲 𝐟𝐨𝐫𝐦 𝐨𝐫 𝐛𝐲 𝐚𝐧𝐲 𝐦𝐞𝐚𝐧𝐬, 𝐢𝐧𝐜𝐥𝐮𝐝𝐢𝐧𝐠 𝐩𝐡𝐨𝐭𝐨𝐜𝐨𝐩𝐲𝐢𝐧𝐠 𝐰𝐢𝐭𝐡𝐨𝐮𝐭 𝐭...